برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ سال دو نجی امریکی کمپنیوں کے ساتھ 36کروڑ 40 لاکھ ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی فروخت کا معاہدہ کیا، یہ ہتھیار مبینہ طور پر روس کے ساتھ جنگ کے لیے یوکرین کو بھیجے گئے۔
منگل کو شائع ہونے والی ’بی بی سی اردو‘ کی خصوصی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کہ مبینہ پیش رفت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے دور حکومت میں ہوئی۔
پی ڈی ایم ایک کثیر الجماعتی اتحاد تھا جس نے گزشتہ برس اپریل میں عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے بے دخل کر دیا تھا، اس وقت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے، جو بعد ازاں نومبر 2022 میں ریٹائر ہوئے۔
روس اور یوکرین کا بحران 24 فروری 2022 کو شروع ہوا تھا جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنی فورسز کو یوکرین پر حملے کا حکم دیا۔
دفتر خارجہ نے یوکرین کو اسلحہ اور گولہ بارود کی فروخت سے متعلق شائع رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان تنازع میں ’انتہائی غیرجانب داری‘ کی پالیسی برقرار رکھی اور اس تناظر میں انہیں کوئی اسلحہ یا گولہ بارود فراہم نہیں کیا۔
اگست 2022 کے دوران یوکرین کا تنازع پاکستانی سیاست میں موضوع بحث بنا رہا، جب مذکورہ مبینہ معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے اور خاص طور پر عمران خان کا بطور وزیر اعظم ماسکو کا اسی دن دورہ جب یوکرین پر حملے کا آغاز ہوا تھا، دورے کے چند مہینوں بعد سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے عوامی طور پر حملے کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا تھا ۔
رواں سال جولائی میں دورہ پاکستان کے دوران یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا نے ان خبروں کو مسترد کر دیا تھا کہ پاکستان روس کے ساتھ جاری تنازع کے دوران یوکرین کو ان کی فوج کی مدد کے لیے اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔
تاہم، بی بی سی اردو نے آج(منگل) اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے 155 ایم ایم گولوں (شیلز) کی فروخت کے لیے ’گلوبل ملٹری‘ اور ’نارتھروپ گرومین‘ نامی امریکی کمپنیوں کے ساتھ دو معاہدے کیے، مزید بتایا گیا کہ دونوں معاہدوں پر دستخط 17 اگست 2022 کو ہوئے اور یہ معاہدہ خاص طور پر 155 ایم ایم گولوں کے لیے تھا۔
اس میں مزید کہا گیا کہ گلوبل ملٹری کے ساتھ 23 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا معاہدہ جبکہ نارتھروپ گرومین کے ساتھ 13کروڑ 10 لاکھ ڈالر کا ایک اور معاہدہ کیا گیا، بی بی سی اردو کے مطابق یہ معاہدے گزشتہ ماہ یعنی اکتوبر 2023 میں ختم ہو گئے۔
ڈان ڈاٹ کام نے دفتر خارجہ اور وزارت دفاع سے رابطہ کیا لیکن تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ یہ ڈیلیوری نور خان ایئر بیس سے برطانوی فوجی کارگو طیارے میں کی گئی، جو 5 بار راولپنڈی میں اترا۔
اس طرح کا پہلا طیارہ اسی روز راولپنڈی میں اترا جس دن سابق آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینڈہرسٹ کی رائل ملٹری اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کے دوران پاک برطانیہ تعلقات کو ’تاریخی بلندیوں‘ تک لے جانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ہر بار طیارے نے نور خان ایئربیس سے قبرص میں برطانوی فوجی اڈے اور پھر رومانیہ کے لیے اڑان بھری، وہ بھی ایسے وقت میں جب روس رومانیہ کے پڑوسی ملک یوکرین میں جنگ لڑ رہا تھا۔
بی بی سی اردو نے اپنی رپورٹ میں اپنے دعوے کے حق میں مزید شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 2022-23 کے دوران ملک کی اسلحے کی برآمدات میں 3 ہزار فیصد اضافہ ہوا، پاکستان نے 2021-22 میں ایک کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا اسلحہ برآمد کیا جبکہ 23-2022 میں یہ برآمدات41 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں۔
رپورٹ میں یوکرین سیکیورٹی اسسٹنس انیشی ایٹو کی ایک دستاویز کا بھی حوالہ دیا گیا، جو کہ یوکرین کے روس کے خلاف دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا امریکی محکمہ دفاع کا فنڈنگ پروگرام ہے۔
اس دستاویز میں اگست 2022 میں یوکرین کو 155 ایم ایم گولوں کی فراہمی سے متعلق معاہدوں کو ظاہر کیا گیا، واضح رہے کہ اس رپورٹ میں یہ بات اجاگر کی گئی کہ گلوبل ملٹری اور نارتھروپ کے ساتھ اگست 2022 میں پاکستان کے 155 ایم ایم گولوں کے دو معاہدوں کی مالیت بھی تقریباً 36 کروڑ 40 لاکھ ڈالر ہے۔