معروف جریدے نے بھارت میں صحافتی آزادی کی سنگین صورتحال پر خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ غیر جانبدار صحافت اور آزاد میڈیا مُودی سرکار کے فاشزم کی بھینٹ چڑ ھ گیا۔
ڈی ڈبلیو کے مطابق بھارت میں صحافت کا گلا گھونٹنے کے لیے انسداد دہشتگردی کے قوانین کا استعمال تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ حال ہی میں بھارتی صحافی صدیق کپن کو شفاف صحافت کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ رواں ماہ کے دوران بھی ہندوستانی پولیس نے نیوز کلک کے صحافیو ں کے گھرو ں پر چھاپے مارے۔ ہندوستانی پولیس نے نیوز کلک پر چین سے فنڈنگ کا الزام لگایا۔
ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق؛ ”ہندوستانی پولیس اب تک 25سے زائد صحافیوں سے پوچھ گچھ کر چکی ہے“۔ نیوز کلک کے بانی پربیر پر کائستھ اور امیت چکرورتی کو ہندوستانی پولیس نے دہشتگردی کے الزام میں گرفتار کر رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کی شفافیت کو روکنا دراصل دنیا سے بھارتی مظالم کو چھپانا ہے۔
فری سپیچ کلیکٹو کی رپورٹ کے مطابق؛ ”2010 سے اب تک 16 صحافیوں کے خلاف انسدادِ دہشتگردی کے تحت مقدمات درج کر کے انہیں جیل بھیجا جا چکا ہے“۔ بھارت میں متعارف کردہ نئے قانون کے پیش نظر حقیقت پر مبنی صحافت کو دہشتگردی کا نام دے دیا گیا ہے۔
مُودی سرکارحکومت میں آنے کے بعد منظم طریقے سے آزادی ِ صحافت کو نشانہ بنا رہی ہے۔ 2020میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومتی جابرانہ ہتھکنڈوں سے تنگ آکر بھارت میں اپنا دفتر بند کر دیا تھا۔ 2022میں بھی آکسفیم کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے۔ 2023 میں آخری آزاد بچ جانے والے میڈیا چینلNDTVکو بھی مُودی سرکار نے گوتم اڈانی کے ذریعے خرید لیا تھا۔
2023 میں مودی کے خلاف ڈاکومنٹری نشر کرنے پر بی بی سی انڈیا کے دفاتر پر بھی چار روز تک چھاپے مارے گئے تھے۔ مُودی کے ہندوستان میں چاہے وہ اپوزیشن لیڈ ر ہوں، میڈیا ہو، کارکن ہو یا کوئی اور، حق کے لئے لڑنے کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔
کیا مُودی سرکار عالمی میڈیا میں ہندو انتہا پسندی کے خلاف بڑھتی آوازوں پر بوکھلاہٹ کا شکار ہے؟