اسرائیلی فوجیوں اور حماس کی ایک دوسرے خلاف بمباری اور راکٹ حملوں میں غزہ کے عام شہری شدید متاثر ہوئے ہیں، رہائشی عمارتوں کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، مکینوں کا کہنا ہے کہ ’ہر جنگ میں اندھا دھند بمباری کی وجہ سے ہمیں اپنا گھر چھوڑنا پڑتا ہے‘۔
اسرائیلی فوجیوں نے آج غزہ کی پٹی کے ارد گرد کے صحرا پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے اور جنگ زدہ سرحدی علاقے سے لوگوں کو نکالنے کے لیے کارروائیاں کی ہیں جبکہ حماس کے ساتھ جاری جھڑپوں کے تیسرے روز تک ہلاکتوں کی تعداد گیارہ سو سے تجاوز کر چکی ہے۔
غزہ کے رہائشی عامر عاشور کی حاملہ بیوی کی ڈلیوری اس وقت ہوئی جب 7 اکتوبر کی رات کو اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بمباری شروع کی تھی۔
دونوں میاں بیوی قریبی زچگی ہسپتال پہنچے تھے جہاں جوڑے کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی تھی، بچے کی پیدائش کے بعد وہ خوف میں مبتلا تھے کیونکہ ان کا گھر زمین بوس ہوچکا تھا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر اچانک فضائی اور زمینی حملوں کے بعد اسرائیلی فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے غزہ کی پٹی پر راکٹ حملے کیے تھے، جن میں مغربی علاقے النصر میں 11 منزلہ عمارت بھی شامل ہے جن میں عامر عاشور رہائش پزیر تھے، اس شہر میں تقریبا تقریباً 80 خاندان آباد تھے۔
حماس کے راکٹ حملوں کے بعد اسرائیل نے ’حالتِ جنگ‘ کا اعلان کردیا تھا، دونوں جانب سے شدید راکٹ حملوں اور بمباری کی وجہ سے اب تک 700 سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں، یہ 1973 کی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد اس کا سب سے بڑا نقصان ہے، دوسری جانب غزہ کے حکام نے کم از کم 413 اموات کی اطلاع دی ہے۔
غزہ کے رہائشی عامر عاشور نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’مجھے سب سے زیادہ خوف یہ تھا کہ میری بیوی بچے کو جنم دینی والی تھی، میں پریشان تھا کہ مسلسل بمباری کی وجہ سے ہم ہسپتال کیسے پہنچیں گے؟ لیکن مجھے بالکل امید نہیں تھی کہ میرا گھر بمباری کی وجہ سے تباہ ہوجائے گا۔‘
انہوں نے ملبے سے اپنا سامان نکالتے افسردہ ہوتے ہوئے کہا کہ ’آج ہم سب، ہمارے بچے، عورتیں بے گھر ہیں، اس مشکل وقت میں ہم کہاں جائیں گے؟