اسلام آباد: چیئرمین ایف بی آر ملک امجد زبیر ٹوانہ نے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے چین کے ساتھ 4 ارب ڈالر کے فرق کا معاملہ اٹھانے کی درخواست کی ہے، چین کی طرف سے فراہم کردہ نامکمل ڈیٹا ریونیو اور فارن ایکسچینج میں کمی اور نقصان کا باعث بن رہا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو چار ممالک کے ساتھ تجارت میں 8 ارب ڈالر کے مجموعی فرق پر جاری تحقیقات کے متعلق بریفنگ دی۔ انھوں نے کہا کہ چین کے ساتھ تجارت میں 4 ارب ڈالر کا فرق پایا گیا ہے، جس کے متعلق وزیراعظم کو آگاہ کرکے معاملہ چینی حکام کے ساتھ اٹھانے کی درخواست کی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان کا چین کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں سے متعلق مکمل اعداد و شمار فراہم کرنے کا معاہدہ موجود ہے، لیکن اس پر مکمل عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔
چین نے انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر کو بتایا ہے کہ پاکستان کو 17 ارب ڈالر کی برآمدات کی گئی ہے، لیکن ہمارے پاس اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے چین سے 13 ارب ڈالر کی درآمدات کی ہیں۔ اس طرح چین کے فراہم کردہ اعداد وشمار اور ہمارے اعداد و شمار میں 4ارب ڈالر کا فرق موجود ہے۔
پاکستان بزنس کونسل کی جانب سے نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر کو لکھے گئے خط میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی تاجروں نے چین، سنگاپور، جرمنی اور برطانیہ سے مالی سال 2022 کے دوران 19 ارب ڈالر کی درآمدات کی ہیں جبکہ ان ممالک کی جانب سے پاکستان کو 26.3 ارب ڈالر کی برآمدات کرنے کا بتایا گیا ہے، اس طرح چاروں ممالک کے فراہم کردہ اعداد وشمار اور پاکستانی اعداد وشمار میں 7.3 ارب ڈالر کا فرق پایا جاتا ہے۔
ایف بی آر کے کسٹم آپریشنز کی ممبر زیبا حئی نے اس حوالے سے بتایا کہ ہم چینی حکام سے گڈز ڈیکلریشن کے مطابق اعداد و شمار مانگ رہے ہیں، لیکن چینی حکام ہمیں صرف یکمشت اعداد و شمار ہی فراہم کر رہے ہیں۔ چین اب کوارنٹائن کے حساب سے اعداد وشمار فراہم کرنے کیلیے تیار ہے، لیکن انوائس کی بنیاد پر اعداد و شمار دینے سے اب بھی گریزاں ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے تحقیقات مکمل کرنے کیلیے کمیٹی سے ایک ہفتے کا مزید وقت مانگ لیا۔
زرعی ٹیکس میں اضافے سے متعلق چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ زرعی ٹیکس کا معاملہ صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں 10 ملین ٹیکس دہندگان رجسٹرڈ ہیں، لیکن ان میں سے صرف 4.2 ملین افراد نے ہی گزشتہ سال ٹیکس ریٹرنز فائل کیے ہیں۔