افغانستان میں خواتین آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی تحقیقات انسانیت کے خلاف جرم کے طور پر کی جائیں۔
یواین ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی صورتحال 2002 سے پہلے کے دور کی طرف لوٹ گئی ہے۔ طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کو عوامی عہدوں اور عدلیہ سےمکمل طور پر خارج کر دیا گیا۔
پورےملک میں خواتین کو دنیا سے الگ کر کے جیل جیسے حالات پیدا کر دیے گئے۔ افغانستان میں سیاسی عدم استحکام اور تشدد نے خواتین کی ذہنی اور جسمانی صحت پر شدید منفی اثرات مرتب کیے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن رپورٹ کے مطابق افغانستان میں زچگی کی اموات کی شرح اسکے تمام 6 پڑوسی ممالک سے زیادہ ہے۔
امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس کے مطابق فروری 2023 میں خواتین ڈاکٹرز کے زیر اہتمام 4 طبی مراکز بند کر دیے گئے۔ مئی 2023 میں طالبان حکام نے خواتین کی صحت کے مسائل کو اجاگر نہ کرنے کی ہدایات دیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن رپورٹ میں کہا گیا کہ 100,000 میں سے 650 افغانی نومولود بچوں کی اموات ایشیاء میں سب سے زیادہ ہیں۔
انٹرنیشنل کمیشن فار جیورسٹ کا کہنا ہے کہ افغان خواتین کے حقوق پر طالبان کا کریک ڈاؤن صنفی تشدد کا باعث بن سکتا ہے۔
سیکرٹری جنرل ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہ بین الاقوامی سطح پر منظم اور وسیع طرز کے جرائم ہیں۔
ایک اندازے کےمطابق طالبان حکومت کے اقتدار کے بعد 2025 تک 51,000 زچگی اموات اور 4.8 ملین غیر ارادی حمل کا امکان ہو سکتا ہے۔
افغان حکومت نے خواتین کی کمیونٹی سروسز کو بھی نشانہ بنایا۔
امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس کی رپورٹ کے مطابق جون 2023 میں غیر ملکی این جی اوز پر کمیونٹی کی بنیاد پر تعلیمی پروگرامز پر پابندی لگا دی گئی۔
افغان حکومت نے خواتین کے کھیل اور پارکوں میں جانے پر بھی پابندی لگادی۔
امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس کے مطابق مارچ 2022 میں خواتین پر بغیر محرم کے صحت مراکز میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اگست 2021 میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد میں بتدریج اضافہ ہوا۔
ستمبر 2021 میں خواتین کی وزارت امور کو تبلیغ اور برائی کی روک تھام کی وزارت سے تبدیل کر دیا۔
الجزیرہ کے رپورٹ کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے ایک ماہ بہت ہی افغانستان کی قومی خواتین فٹبال ٹیم پاکستان فرار ہو گئیں۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغان خواتین فٹبالرز کو ہنگامی بنیاد پر ویزے جاری کیے گئے۔
مقامی افغان باشندوں کا کہنا ہے کہ خاندان تحفظ کے طور پر بیٹیوں کی جلدی شادی کرتے ہیں تاکہ انکو طالبان فائٹرز سے شادی پر زبردستی مجبور نہ کیا جائے۔
افغان خواتین مسلسل اپنے حقوق کی جنگ لڑتی رہیں ہیں۔