آئرش مصنف پال لنچ ن کو ان کے ناول ’پروفیٹ سونگ‘ پر سال 2023 کے بکر پرائز سے نواز اگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 46 سالہ پال لنچ کو یہ انعام برطانوی دارالحکومت لندن میں منعقدہ ایک ادبی تقریب میں دیا گیا۔ امسالہ بکر پرائز کے لیے مجموعی طور پر چھ ناول نگاروں کے نام شارٹ لسٹ کیے گئے تھے، جن میں سے اس انعام کا حقدار پال لنچ (Paul Lynch) کو ٹھہرایا گیا۔مصنف پال لنچ کا ناول ایک تخیلاتی صورت حال کے بارے میں ہے، جس میں آئرلینڈ مطلق العنانی کا شکار ہو جاتا ہے
پال لنچ یہ باوقار ادبی انعام جیتنے والے پانچویں آئرش مصنف ہیں۔ ان سے قبل یہ انعام جو چار آئرش مصنفین جیت چکے ہیں، ان کے نام آئرس مرڈوک، جان بین وِل، رَوڈی ڈوئل اور این اینرائٹ ہیں۔
پال لنچ کو بکر پرائز کے ساتھ 50 ہزار برطانوی پاؤنڈ (تقریباﹰ 63 ہزار امریکی ڈالر) کا نقد انعام بھی دیا گیا۔
بکر پرائز وصول کرتے ہوئے لنچ نے تقریب کے شرکاء سے اپنے خطاب میں کہا کہ انہیں جس ناول کی وجہ سے یہ اعزاز دیا گیا ہےوہ کوئی آسانی سے لکھی جانے والی کتاب نہیں تھی۔
اس آئرش مصنف کو ان کے جس ناول کی وجہ سے 2023ء کا بکر پرائز دیا گیا، اس کا نام ‘پروفیٹ سونگ‘ (Prophet Song) یا ‘پیغمبر کا گیت‘ ہے۔ یہ تخیلاتی ناول ڈبلن شہر میں مستقبل کے آئرلینڈ میں ایک ایسے ماحول میں لکھا گیا ہے، جو مطلق العنانی سے عبارت ہے اور جس کا بنیادی خیال چار بچوں کی ایک ایسی ماں کی مسلسل جدوجہد ہے، جو اپنے خاندان کو آمرانہ اور خود پسندانہ نظام حکومت سے بچانا چاہتی ہے۔
‘پروفیٹ سونگ‘ مصنف پال لنچ کا پانچواں ناول ہے۔
بکر پرائز کی پانچ رکنی جیوری کی رکن کینیڈا سے تعلق رکھنے والی ناول نگار ایسی ایدُگین نے کہا کہ جیوری نے اس سال کے بکر پرائز کا حق دار پال لنچ کے ٹھہرانے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ ان کا ”یہ ناول بہت تکلیف دہ حالات میں انسانی جدوجہد کی کہانی کو بڑے جذباتی انداز میں لیکن بڑی بہادری سے بیان کرنے کے عمل کی فتح ہے۔
جیوری کی سربراہ اور کینیڈین ناولسٹ ایدُگین کے الفاظ میں اپنے مناظر کی شفافیت کے ساتھ اور داستان گوئی کی باہمت جذباتیت کے ساتھ، ‘پیغمبر کا گیت‘ ان تمام سماجی اور سیاسی پریشانیوں اور بے چینیوں کا احاطہ کرتا ہے، جو ہمارے موجودہ عہد کی پہچان بن چکی ہیں۔
اس سال بکر پرائز کے لیے جن چھ ادیبوں کے نام شارٹ لسٹ کیے گئے تھے، ان میں پال لنچ کے علاوہ آئرلینڈ ہی کے ایک اور مصنف کا نام بھی شامل تھا جبکہ باقی چار میں سے دو کا تعلق امریکہ سے، ایک کا کینیڈا سے اور ایک کا کینیا سے تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ ان تمام چھ ادیبوں کے نام اس سے پہلے بکر پرائز کے لیے کبھی شارٹ لسٹ نہیں کیے گئے تھے۔