اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ لڑائی نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور ان کی جماعت کومحدود کیا ہے۔ فوٹو: فائل
اسرائیل اور حماس کے درمیان چار روز کے لیے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔اس معاہدے کا کریڈٹ مصر اور قطر کو جاتا ہے۔ دونوں ممالک نے ثالثی کا مثبت کردار ادا کیا ہے۔
امریکا کے صدر جو بائیڈن نے دونوں ممالک کا شکریہ ادا کیا۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کی حکومت نے غزہ میں 50 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیںجب کہ اسرائیلی جیلوں میں قید 150 فلسطینی خواتین اور بچوں کو رہا کیا جائے گا۔
اس معاہدے کے تحت جنگ زدہ علاقے غزہ میں بھیجی جانے والی امداد کی مقدار بڑھائی جائے گی۔اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ جنگ میں 4 روزہ وقفے کے دوران 50 اسرائیلی شہریوں کو وقفوں میں رہا کیا جائے گا۔
غزہ کے جو حالات ہیں‘ اس کا تقاضا مستقل جنگ بندی ہے کیونکہ غزہ کے پاس نہ فوج ہے اور نہ ہی کوئی فضائی قوت ہے ‘ اسرائیلی فضائیہ کی بمباری اور راکٹ حملوں کے نتیجے میں غزہ میں جو انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے‘ اس کی تعمیر و مرمت بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔
اس کام پر بھاری اخراجات ہوں گے‘اس کے علاوہ غزہ کے شہریوںکی نجی املاک اور کاروبار کوبے پناہ نقصان پہنچا ہے‘اس کے ازالہ کے لیے بھی غزہ انتظامیہ کوبھاری اخراجات کرنے پڑیں گے‘یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ جنگ نے غزہ کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔صحت اور تعلیم کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔
تعلیمی سرگرمیاں بند ہیں۔ان معاملات کو مدنظر رکھا جائے تو چار روزہ جنگ بندی ایک عارضی ریلیف کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اقوام عالم کو چاہیے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈال کر مستقل جنگ بندی کرائیں تاکہ غزہ میں معمولات زندگی بحال ہو سکے اور شہری اپنے اپنے کاروبار اور ملازمتوں میں مصروف ہوں۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے جنگ بندی معاہدے کو سراہتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے وسیع تر حل‘ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان جاری طویل تنازع کے خاتمے پر زور دیا ہے۔
انھوں نے کہا ہم معاہدے کی تحسین کرتے ہیں، جو مصر اور قطر کی کوششوں سے ممکن ہوا ہے۔ عرب وزرائے خارجہ نے کہا ہے کہ عارضی جنگ بندی میں توسیع کی جانی چاہیے اور یہ جارحیت کے مکمل خاتمے کی جانب پہلا قدم بننا چاہیے۔ سعودی عرب، مصر اور اردن کے وزرائے خارجہ نے لندن میں میڈیا بریفنگ میں کہا کہ یہ معاہدہ دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کی بحالی ہونا چاہیے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ لڑائی نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور ان کی جماعت کومحدود کیا ہے۔پی ایل او سیاسی نظریات کے حوالے سے حماس کی قیادت کے ساتھ متفق نہیں ہے۔پی ایل او اور محمود عباس لبرل نیشنل ازم کے دعوے دار ہیں‘ ان کے پیش رو یاسر عرفات بھی انھی نظریات کے حامل تھے۔
حماس مذہبی نیشنل ازم کے علمبردار ہیں۔یوں دونوں میں خاصا نظریاتی اختلاف ہے‘ تاہم فلسطینی نیشنل ازم کے حوالے سے دونوں کے نظریات میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔اسرائیل کے قیام اور اس کے پھیلاؤ کے حوالے سے تمام فلسطینیوں کا ایک ہی نظریہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا قیام ناجائز ہے۔
بہرحال معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے حقائق کی دنیا میں رہنا لازم ہے ‘ اس لیے اب پی ایل او اور عرب ممالک دو ریاستی نظریے کے حامی ہیں۔ اس نظریے کے تحت ارض فلسطین میں دو خود مختار ریاستیں قائم کی جائیں‘ایک فلسطین اور دوسری اسرائیل ۔کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدے کا تقاضا بھی یہی ہے۔ بہرحال اس وقت سب سے زیادہ ضرورت غزہ میں جنگ بندی کی ہے۔ اس عارضی ریلیف کو مستقل کرانا اقوام عالم کی ذمے داری ہے۔
ترکیہ کے صدررجب طیب اردوان نے الجزائر کا دورہ کیا ہے۔ ترکیہ واپسی پر طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا وہ غزہ سے مریضوں کے انخلا اور دیگر اقدامات پر تبادلہ خیال کے لیے جلد ہی مصر کا دورہ کر سکتے ہیں۔ اسلامی دنیا کو غزہ پر اتحاد اور یکجہتی کے جذبے کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔
قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان آل ثانی نے کہا کہ یرغمالیوں کی اسرائیل واپسی کی یہ ڈیل غزہ پٹی میں قیام امن کا باعث بنے گی۔ جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے بھی اسرائیل اور حماس کے مابین یرغمالیوں کی واپسی کی اس ڈیل کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈئر لاین نے ایکس پر لکھا کہ وہ معاہدے کا خیر مقدم کرتی ہیں۔
وہ جانتی ہیں اس اتفاق رائے کو حتمی شکل دینا آسان ہر گز نہ تھا۔ چینی حکومت کی ترجمان نے بریفنگ کے دوران کہا امید ہے اس سے انسانی بحران اور تنازعات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوترس نے قطر کی ثالثی، مصر اور امریکا کے تعاون سے اسرائیل اور حماس کے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے مزید پیش رفت کی ضرورت پر زور دیا ۔
روس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مستقل حل کی کوششوں کے لیے انسانی بنیاد پر لڑائی میں وقفہ واحد راستہ ہے۔روسی ترجمان دیمتری پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ اسی طرح کے وقفے کی بنیاد پر امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ادھر مصر نے اسرائیل کو پھر خبر دارکیا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کو نکالا گیا تو فیصلہ کن ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تمام ممالک جنگ بندی کی حمایت کر رہے ہیں‘ صدر اردوان اور مصر کا ردعمل بھی خاصا مضبوط ہے۔ عرب لیگ بھی اپنا دباؤ بڑھائے ہوئے ہے ‘ اس لیے لگتا یہی ہے کہ معاملات کسی حتمی حل کی طرف چل نکلیں گے۔
ایک طرف یہ سرگرمیاں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف امریکا نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے سے انکار کر دیا ہے۔
امریکی کانگریس سے اسرائیل کے لیے مزید عسکری امداد کی منظوری کے لیے درخواست کردی گئی،ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے پریس بریفنگ میں کہا کہ امریکی کانگریس سے اسرائیل اور یوکرین کے لیے اضافی امداد کی منظوری کے لیے درخواست کردی گئی۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم کر رہا ہے جس کے شواہد کا جائزہ لیا ہے۔
ہم نے جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کے جائزے کے دوران 19اور 20اکتوبر کو ہونے والے دو حملوں کو دستاویزی شکل دی ہے جس میں اسرائیلی بمباری سے 20بچوں سمیت 46شہری ہلاک ہوگئے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں ایک مقام پر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا جس میں 46بے گناہ شہری مارے گئے جس کی اعلی سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے ایک چرچ کی عمارت پر بھی بمباری کی جس میں بے گھر فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی تھی‘ اس کے علاوہ مساجد، اسکولوں اور اسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا۔
اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے مظالم کی تفصیل نصف صدی پر محیط ہے۔ ماضی میں بھی کئی بار ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر ممالک نے رپورٹیں بنائیں ‘اقوام متحدہ کے زیر سایہ کام کرنے والے مختلف اداروں نے بھی اسرائیلی مظالم کی تفصیلات رپورٹ کیں لیکن معاملات وہیں کے وہیں ہیں۔ اس سارے تنازعے میں سب سے زیادہ نقصان عام فلسطینی شہریوں کا ہوا ہے۔
ماضی میں بھی ان کے ہی گھر مسمار ہوئے ہیں اور اب بھی انھی کے گھر تباہ کیے جا رہے ہیں۔ امیر فلسطینی امریکا اور یورپی ممالک میں یا بیروت اور قطر میں مقیم ہیں ‘کئی امیرفلسطینی اردن کے دارالحکومت امان میں رہائش پذیر ہیں جب کہ عام فلسطینی شہری کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
اس لیے اقوام عالم ہوں یا عرب ممالک کی قیادت‘ انھیں سب سے پہلے عام فلسطینیوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں‘ اسرائیل کی فوجی اور معاشی طاقت مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ ہے۔
امریکا اور یورپی یونین اسرائیل کی حمایت میں ہیں جب کہ فلسطینیوں کی عالمی سطح پر عوامی حمایت تو بہت زیادہ ہے لیکن طاقتور اقوام کے اندر ان کی حمایت کم ہے اور اگر ہے بھی تو وہ موثر ثابت نہیں ہورہی‘اس لیے حقائق کے مطابق تنازعہ فلسطین کا حل مستقل بنیادوں پر کیا جائے ‘فلسطینیوں کی آزاد اور خود مختار ریاست کا قیام اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے لازم ہو چکاہے ۔