ان مفاہمت ناموں کی بدولت متحدہ عرب امارات کی پاکستان میں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوگی۔
پاکستانی معیشت کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری بڑھنے لگی ہے۔ ریاست پاکستان نے حالیہ چھ سات برس کے دوران میں معاشی کسمپرسی کا ایک بہت درد ناک دور دیکھا ہے، جس سے نکلنا تقریباً نا ممکن لگ رہا تھا لیکن پچھلے کچھ مہینوں سے ملکی عسکری و سیاسی قیادت کی انتھک محنت اور مخلصانہ کاوشوں کی بدولت پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے امیدکی روشن کرن نظر آئی ہے۔
یو اے ای اور دوسرے عرب ممالک کے سرمایہ کاروں کے پاس تجربہ ہے، جس سے پاکستان میں بہتر انداز میں کاروبارکیا جا سکتا ہے اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں بھی مزید بہتری آئے گی۔ یو اے ای کے سرمایہ کاروں کی آمد سے پاکستانی عوام کو بھی فائدہ ہوگا۔
پاکستان اور یو اے ای کے دیرینہ تعلقات ہیں متحدہ عرب امارات میں 17 لاکھ پاکستانی روزگار سے منسلک ہیں، جو یو اے ای کی ترقی کا حصہ ہیں۔ یو اے ای ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔
کراچی بندرگاہ کے کنٹینر ٹرمینل کا کنٹرول متحدہ عرب امارات کی حکومتی کمپنی کے حوالے کرنے سے نہ صرف پاکستان کو فوری طور پر خطیر رقم حاصل ہوگی بلکہ پورٹ آپریشنز میں اضافے کے ساتھ یو اے ای کی موجودگی سے عالمی مارکیٹ میں ملکی ساکھ بہتر بنے گی۔
معاہدے کے تحت یو اے ای کراچی پورٹ ٹرسٹ کو پانچ کروڑ ڈالر فوری طور پر ادا کرے گا جب کہ اس ٹرمینل کی توسیع کے لیے آنے والے تین سے پانچ سال کے دوران 10.2 کروڑ ڈالر خرچ کرے گا۔
اسی طرح کراچی پورٹ ٹرسٹ کو ہر سال 50 سے 70 لاکھ ڈالر ملنے کے علاوہ مستقبل میں پورٹ پر ٹریفک بڑھنے سے آمدن میں بھی اضافہ ہوگا۔ کراچی پورٹ پر عالمی مارکیٹ کے بڑے پلیئر متحدہ عرب امارات کی موجودگی کے باعث عالمی منڈیوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق مثبت تاثر جائے گا۔
پاکستانی معیشت کی بات کی جائے تو کچھ سالوں کی ترقی نے درآمدات کو بڑھاوا دیا جب کہ دوسری طرف برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے کے سبب تجارتی خسارہ اورکرنٹ اکائونٹ بڑھا اور یوں بیرونی قرضوں میں اضافے کی نئی مجبوری اور مشکل بار بار سامنے آن کھڑی ہوئی۔
نگران حکومت کے لیے لازم ہے کہ ان مسائل کے طویل مدت حل کے لیے بنیادی اصلاحات اور پیداواری ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لا کر معیشت کو کم ویلیو پیداواری ڈھانچے سے نکال کر بہتر ویلیو اور ٹیکنالوجی کے پیداواری سانچے میں ڈھالنے کا بیڑہ اٹھائے تو یقینا ایک نئے مستحکم معاشی مستقبل کا تصورکیا جا سکتا ہے۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ عالمی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کو تنازعات کے موثر اور غیر جانبدارانہ حل کو یقینی بنانے کے لیے اپنے قانونی طریقہ کار کو مضبوط بنانے کو ترجیح دینی چاہیے،اس سے نہ صرف سرمایہ کاروں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے بلکہ ایک مستحکم کاروباری ماحول پیدا کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کار اکثر قانونی ابہام اور تنازعات کے حل میں تاخیرکے خدشات کو کسی خاص ملک میں سرمایہ کاری میں رکاوٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ قانونی طریقہ کارکو آسان بناکر، تنازعات کے حل کے متبادل طریقہ کارکو متعارف کروا کر، اور منصفانہ اور بروقت قانونی چارہ جوئی کو یقینی بنا کر، پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے اپنی کشش کو بہتر بنا سکتا ہے۔
اسی طرح ایک دوسرے سے جڑی ہوئی عالمی معیشت میں، شفافیت وہ کرنسی ہے جو اعتماد اور اعتماد پیدا کرتی ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کار میزبان ملک کے ریگولیٹری فریم ورک، مالیاتی نظام اور کاروباری طریقوں کی شفافیت کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں پاکستان کو کھلی اور شفاف معلومات کو فروغ دینے، انسداد بدعنوانی کے اقدامات پر عمل درآمد اور افسر شاہی کے عمل کو ہموار کرکے شفافیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو ملک پاکستان نے روشن مستقبل کی بنیاد رکھ لی ہے، اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلی ٹیشن کونسل کے قیام سے بیرونی سرمایہ کاری کے واضح اثرات سامنے آ رہے ہیں جس کے معاشی ثمرات براہِ راست عوام تک پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔
مجموعی طور پر ملک میں معاشی بہتری کے اثرات نظر آرہے ہیں جن میں ترقی کی مجموعی آؤٹ لک بہتر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
ایف بی آر نے ہدف سے زیادہ ٹیکس وصولی کی ہے، ٹیکس فائلنگ میں بھی ستمبر 2022کی نسبت ستمبر 2023میں بہتری آئی، اسی طرح ستمبر 2023میں پاکستان کی برآمدات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے پہلے دو ماہ کے مقابلے میں رواں مالی سال کے پہلے دو مہینوں میں پاکستان کی غیر ملکی فنانسنگ 6 گنا سے زائد بڑھی ہے۔
زرعی فصلوں کی پیداوار میں بھی مجموعی طور پر بہتری آئی ہے جیسا کہ ملک میں کاٹن پروڈکشن 72 فیصد بڑھ گئی ہے۔
چاول کی پیداوار 9 ملین ٹن تک پہنچنے کے امکانات کے باعث اس برس اڑھائی ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ممکن ہوگی جب کہ گندم کی پیداوار 28 ملین ٹن تک پہنچ گئی جو پانچ برس کی اوسط سے زیادہ ہے۔
یورپین یونین کی جانب سے پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس 2027تک بڑھا دیا ہے جس کا براہِ راست اثر پاکستانی مصنوعات کی یورپی منڈیوں تک رسائی ہے، یورپین یونین کا یہ قدم ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان عالمی مارکیٹ میں اہم کھلاڑی ہے۔
ملک میں زرعی وصنعتی پیداوار میں اضافے اور حکومتی و عسکری اداروں کی جانب سے ڈالر واشیاء کی غیر قانونی اسمگلنگ و تجارت کی روک تھام کی بدولت پاکستانی روپے کی قدر میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے، ڈالرکی قیمت میں دو ماہ میں 50 روپے سے زیادہ کمی آچکی ہے۔
ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ عالمی سطح پرکئی دن تک سرفہرست کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کرنسی بن گیا، پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی اور آنے والے ہفتوں میں روپے کی قدر میں بہتری اور روسی برآمدات پر پابندی اٹھ جانے سے مزید کمی کا امکان ہے، مقامی مارکیٹ میں سونے کی فی تولہ قیمت ایک طویل عرصے کے بعد 2 لاکھ فی تولہ سے کم ہوئی ہے۔
پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات بھی بہتر ہو رہے ہیں اور دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی جانب راغب ہو رہی ہیں۔
اگر ملک ترقی و خوشحالی کے اسی راستے پر گامزن رہا تو اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں متوقع کمی، بہتر فصل پیداوار،خوراک کی پیداوار، اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے مہنگائی میں بتدریج کمی ممکن نظر آرہی ہے۔
فصل کی پیداوار میں بہتری کی وجہ سے پاکستان 5 ارب ڈالر تک فارن ایکسچینج بچا سکے گا (کپاس، گندم، ٹیکسائل، خوردنی تیل اور چاول کی زیادہ برآمدات اور کم درآمدات) اور تیل کی قیمتیں برقرار رہنے کا امکان ہے۔
اکتوبر،نومبر2023 میں آئی ایم ایف کے پہلے جائزے کی حمایت کے لیے بہتر ٹیکس جمع ہوں گے، تیل کی قیمتوں میں کمی اور فصل کی بہتر پیداوارکی وجہ سے تجارتی خسارہ قابو میں رہے گا،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مالی سال 2024 کے لیے تقریباً 6 ارب ڈالر تک ہوگا۔
مختصراً یہ کہ معیشت کے میدان میں پاکستان کی حالیہ کامیابیاں ایک بہتر مستقبل کی روشن امید ہیں، اگر ملک اسی راستے پر چلتا رہا تو راستے مستقبل میں مزید ہموار ہوں گے اور ہمارا ملک ترقی کی منازل طے کرتا جائے گا، نہ وسائل کی کمی ہے اور نہ امید کی،کمی صرف خلوصِ نیت اور ملکی مفاد کو ترجیح دینے کی ہے جس کی جھلک حالیہ کاوشوں میں نظر آئی ہے۔