اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے، ان کے نتائج بھی سنگین ہوں گے۔
سپریم کورٹ میں سابق جج شوکت عزیز صدیقی کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم 5 رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے ، جس میں شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کیا درست ہیں؟۔ شوکت عزیز صدیقی کو ان الزامات پر مبنی کی گئی تقریر پر برطرف کیا گیا۔ سوچ کر جواب دیں کہ کیا آپ کے الزمات درست ہیں؟۔ کیا وہ جنرلز جن کو آپ فریق بنانا چاہتے ہیں وہ خود 2018 کے انتخابات میں اقتدار میں آنا چاہتے تھے؟۔ اگر شوکت عزیز صدیقی کے الزامات درست ہیں تو وہ جنرلز کسی کے سہولت کار بننا چاہ رہے تھے۔جس کی یہ جنرل سہولت کاری کر رہے تھے وہ کون تھا؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے الزامات بہت سنگین نوعیت کے ہیں۔ کیا ایک شخص کو جیل میں رکھ کر اپنے پسندیدہ شخص کو جتوانا مقصد تھا؟۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ فائدہ کس کو ملا۔ اصل فائدہ اٹھانے والا تو کوئی اور ہے۔ آپ سہولت کاروں کو فریق بنا رہے ہیں، اصل بینیفشری تو کوئی اور ہے۔ آپ نے درخواست میں اصل بینیفشری کا ذکر ہی نہیں کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے لوگوں پر پیٹھ پیچھےالزامات لگائے ۔ جن پر الزامات لگائے گئے، وہ کسی اور کے لیے سہولت کاری کر رہے تھے۔ سہولت کاری کرکے کسی کو تو فائدہ پہنچایا گیا۔ آئین پاکستان کی پاسداری نہ کرکے وہ اس جال میں خود پھنس رہے ہیں۔ سہولت کاروں کو فریق بنا لیا ہے تو فائدہ اٹھانے والے کو کیوں نہیں بنایا؟ ، جس پر وکیل نے کہا کہ فائدہ کس نے لیا ایسی کوئی بات تقریر میں نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہوچکا ہے۔ فوجی افسر کسی کو فائدہ دے رہے تو وہ بھی اس جال میں پھنسے گا۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ فوج شاید مرضی کے نتائج لینا چاہتی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک امیدوار کو سائیڈ پر اسی لیے کیا جاتا ہے کہ من پسند امیدوار جیتے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ 70 سال سے ملک میں یہی ہو رہا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا 70 سال سے جو ہورہا ہے اس کا ازالہ نہ کریں؟۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فوج ایک آزاد ادارہ ہے یا کسی کے ماتحت ہے؟فوج کو چلاتا کون ہے؟، جس پر وکیل نے کہا کہ فوج حکومت کے ماتحت ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت فرد نہیں ہے۔ جو شخص فوج کو چلاتا ہے اس کا بتائیں۔ جب آپ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم آئین کے مطابق چلیں گے۔ یہ آسان راستہ نہیں ہے۔ شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے، ان کے نتائج بھی سنگین ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے کندھے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کسی ایک سائیڈ کی طرف داری نہیں کریں گے۔
وکیل بار کونسل صلاح الدین نے عدالت میں کہا کہ سابق جج نے اپنے تحریری جواب میں جن لوگوں کا نام لیا، ہم ان کو فریق بنا رہے ہیں۔ شوکت عزیز صدیقی نے بانی پی ٹی آئی سمیت کسی اور کو فائدہ دینے کی بات نہیں کی۔ مفروضے پر ہم کسی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کسی کا نام نہیں لے سکتے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات بھی مفروضے ہیں۔