کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے کے الیکٹرک کے ذریعے کے ایم سی چارجز لینے کیخلاف امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کی درخواست پر آئندہ سماعت پر دونوں فریقین سے مزید دلائل طلب کرلیے۔
جسٹس ندیم اختر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو کے الکٹرک کے ذریعے کے ایم سی چارجز لینے کیخلاف امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کی درخواست پر سماعت کی۔
جماعت اسلامی کے وکیل عثمان فاروق ایڈوکیٹ، عدالتی معاون منیر اے ملک اور میئر کراچی مرتضی وہاب عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالتی معاون و سینئر وکیل منیر اے ملک نے موقف دیا کہ کے الیکٹرک وفاقی حکومت کے ماتحت ادارہ ہے، صوبائی ٹیکس وصول نہیں کرسکتا۔ کے الیکٹرک بجلی کا بل ادانہ کرنے پر بجلی منقط کرسکتی ہے لیکن کے ایم سی ٹیکس پر نہ دینے پر بجلی منقط کرنے کا اختیار نہیں۔
مرتضی وہاب نے کہا کہ کے ایم سی ٹیکس وصول نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین کی تنخواہیں رک جاتی ہیں۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر دونوں فریقین سے مزید دلائل طلب کرتے سماعت 16 جنوری تک ملتوی کردی۔
سماعت کے بعد میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ساڑھے 10 ارب روپے تو صرف ملازمین کی پینشن ہے۔ کیسے کوئی سرکاری ادارہ ٹیکسیشن کے نظام کے بغیر چل سکتا ہے۔ ماضی میں جو ٹیکس 5 ہزار روپے تھا وہ آج کم کرکے 50 روپے کردیا گیا ہے۔ جو پیسہ پہلے لوگوں کی جیبوں میں چلا جاتا تھا اب وہ اکاؤنٹ میں آئے گا اور چوری نہیں ہوپائے گی۔ ہر پاکستانی کا اعتراض ہے، میں سمجھتا ہوں کوئی بھی شہری ٹیکسیشن کے نظام سے مطمئن نہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ شہری ان مخیر حضرات کا بھی ہے جو لاکھوں کروڑوں روپے خیرات کردیتے ہیں۔ اگر 50 روپے کے ایم سی کو 23 لاکھ کنزیومر سے ملے گا تو کے ایم سی کو ساڑھے 4 ارب روپے ٹیکس ملے گا۔
ترجمان جماعت اسلامی نے مرتضی وہاب کے بات چیت پر رد عمل دیتے ہو کہا کہ ایم یو سی ٹی کیس میں جماعت اسلامی کے وکیل عثمان فاروق موجود تھے۔ کے الیکٹرک پہلے ہی کے ایم سی کی اربوں روپے کی نادہندہ ہے۔ ایک نادہندہ ادارے کو کیسے ٹیکس جمع کرنے کا اختیار دیا جاسکتا ہے۔ کے ایم سی کے پاس پہلے سے خود ٹیکس وصولی کا طریقہ کار موجود ہے۔ کے ایم سی کے اداروں میں کرپشن ختم کرنے کے بجائے مرتضیٰ وہاب کے الیکٹرک کو ٹیکس وصولی دینے کے لئے کیوں بے چین ہیں۔