ورجینیا: ایک نئے مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ چپس، چاکلیٹ اور آئس کریم جیسی غذاؤں پر ’ایڈکٹِیو‘ (نشہ آور) کا لیبل لگانا مٹاپے کی شرح کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
محققین کے مطابق جس طرح کچھ لوگ خالص کاربوہائیڈریٹس اور چکنائی سے بھرپور غذاؤں کی کھپت کرتے ہیں، نشہ آور اشیاء کے استعمال کے مرض کی تشخیص کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔
محققین کے مطابق سات میں سے ایک بڑی عمر کا فرد اور آٹھ میں سے ایک بچہ الٹرا پروسیسڈ غذا کا عادی ہوتا ہے جس کے سبب اس غذا کی شدید طلب، ایسی غذاؤں کے نہ ملنے کی صورت میں دماغ اور جسم میں بے چینی کی علامات اور کھانے کی مقدار پر کنٹرول میں کمی ہوسکتی ہے۔ اور ایسا مٹاپے، خراب جسمانی اور ذہنی صحت اور خراب معیارِ زندگی جیسے نقصان دہ نتائج جاننے کے باوجود ہوسکتا ہے۔
اس سے قبل سائنس دان یہ کہہ چکے ہیں کہ جنک غذاؤں کو ان کی نشہ آور فطرت اور نقصان دہ ہونے کی وجہ سے منشیات کی کیٹگری میں ہی رکھنا چاہیے۔
اس نئی تحقیق میں بین الاقوامی محققین نے 36 مختلف ممالک کے 281 مطالعوں کا جائزہ لیا، جائزے میں معلوم ہوا کہ 14 فی صد بڑی عمر کے افراد جبکہ 12 فی صد بچے الٹرا پروسیسڈ غذاؤں کی لت میں مبتلا تھے۔
جبکہ قدرتی غذائیں (جیسے کہ پھل، سبزی اور مچھلی) جو چکنائی یا کاربوہائیڈریٹس کی شکل میں توانائی فراہم کرتی ہیں یا وہ غذائیں جو صنعتی عمل سے گزرتی ہیں اپنے اندر دونوں رکھتی ہیں۔
محققین نے سامن مچھلی، سیب اور ایک چاکلیٹ بار کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ سامن مچھلی میں کاربوہائڈریٹ ٹو فیٹ کی شرح 1-0 اور سیب میں 0-1 ہوتی ہے۔ تاہم، چاکلیٹ بار میں یہ شرح 1-1 ہوتی ہے جس سے اس کے ممکنہ نشہ آور ہونے میں اضافے کا پتہ چلتا ہے۔