موبائل فون بچوں کی ذہنی صحت کو کس حد تک متاثر کرتا ہے؟ موبائل فون کا استعمال اس وقت یقیناً بہت زیادہ ہوچکا ہے اور بڑی حد تک یہ لوگوں کی ضرورت بھی ہے۔ لیکن اکثر والدین اور عام پروفیشنلز، اپنے موبائل فون کی ضرورت کی حدود کا تعین نہیں کر پاتے اور پھر اس کے نقصانات ان کی اپنی زندگی میں اور بچوں کی صحت، نفسیات اور زندگی پر حد درجہ خطرناک مرتب ہوتے ہیں۔
بچے گھنٹوں موبائل پر کوئی گیم کھیلتے رہتے ہیں یا پھر کوئی تعلیمی ایپ دیکھتے ہیں۔ اب تو یوٹیوب پر اردو یا ہندی کے کارٹونوں کی بہتات ہے، کچھ نہیں تو بچے وہی دیکھتے ہوئے گھنٹوں گزار دیتے ہیں۔
یہاں ایک نکتہ ذہن میں رہے کہ اصل مسئلہ موبائل فون کا نہیں، اس کے استعمال کے طریقہ کار کا ہے۔ کسی شے کے استعمال کا غلط یا درست طریقہ ہی اسے مفید یا مضر بناتا ہے۔ اور موبائل فون کے ساتھ ایسا بہت زیادہ ہے۔ بچوں میں موبائل فون کے استعمال سے بہت سے نفسیاتی، ذہنی، جسمانی اور سماجی نقصانات پیدا ہوتے ہیں
٭ دماغی رسولی یا ٹیومر
موبائل فون سے مستقل طور پر، خطرناک شعاعیں (ریڈی ایشن) نکلتی رہتی ہیں۔ یہ شعاعیں بڑوں کے لیے بھی نقصان دہ ہیں، مگر بچوں خاص کر پانچ برس سے کم عمر کے بچوں پر بہت زیادہ منفی اثرات ڈالتی ہیں۔ کیوں کہ ان پانچ برسوں میں بچے کے اندر بہت سی تبدیلیاں تیزی کے ساتھ آرہی ہوتی ہیں۔ چنانچہ بچہ ہر مثبت اور منفی شے کے اثرات بھی بآسانی قبول کر رہا ہوتا ہے۔
جو بچے دن میں کئی کئی گھنٹے موبائل فون لیے رہتے ہیں، وہ جب کان پر یہ موبائل لگاتے ہیں تو تحقیقات بتاتی ہیں کہ اس عمل سے کان پر رسولی نمودار ہوسکتی ہے، خاص کر کان اور دماغ کے درمیانی حصے میں رسولی بننے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
بچوں میں ہڈیاں، ٹشوز اور دماغ سمیت دیگر اعضا کمزور ہوتے ہیں اور ان میں اتنی مضبوطی نہیں ہوتی۔ چنانچہ موبائل فون سے نکلنے والی ساٹھ فیصد سے زائد شعاعیں بچے کے جسم میں داخل ہوتی ہیں۔ یہ شعاعیں جسم پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتی ہیں، خاص کر ان سے انسانی دماغ براہِ راست متاثر ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت ان شعاعوں کو کینسر پیدا کرنے والے عوامل کی فہرست میں شامل کرچکا ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیجیے کہ آپ جب اپنے بچے کو موبائل تھماتی ہیں تو گویا اسے کینسر کا مریض بنانے کا انتظام کرتی ہیں۔
٭ دماغی سرگرمی میں گڑبڑ
موبائل فون میں الیکٹرو میگنیٹک ویوز یعنی برقناطیسی لہروں کا استعمال ہوتا ہے۔ انسانی دماغ کی بھی اپنی برقی رو ہوتی ہے جس کی مدد سے اعصابی نیٹ ورک ایک پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، بچوں کے اعضا اور اندرونی نظام زیادہ پختہ اور قوی نہیں ہوتے، اس لیے جب بچہ موبائل فون استعمال کرتا ہے تو اس کا اعصابی ابلاغ فوراً اور شدید متاثر ہوتا ہے۔ ماہرین نے یہ مشاہدہ کیا کہ ایک بچہ اگر محض دو منٹ بھی فون پر بات کرے تو اس کے دماغ کی یہ سرگرمی بدل جاتی ہے۔ اس اعصابی تبدیلی کی وجہ سے بچے کے مزاج میں چڑچڑا پن آتا ہے، برتاؤ میں اتار چڑھاؤ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، اور توجہ کی اہلیت بہت کم ہو جاتی ہے۔
موبائل فون کے زیادہ استعمال سے بچوں کی تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ چونکہ موبائل فون کے استعمال سے بچے کی توجہ کی صلاحیت کم ہوتی ہے، وہ نئی چیزیں سیکھنے اور خاص کر پڑھنے لکھنے میں بہت دقت محسوس کرتا ہے۔ یوں، وہ اپنی کلاس میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس کا دل پڑھائی سے اکتانے لگتا ہے۔
٭ نفسیاتی مسائل
بچے تنہائی پسند ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک نئی دنیا میں کھونے لگتے ہیں۔ انھیں سب کچھ سوشل میڈیا سے ملنے لگتا ہے۔ موبائل فون کے استعمال سے سب سے خطرناک مسائل، نفسیاتی مسائل ہیں۔ یہ مسائل اس لیے بھی سب سے خطرناک ہیں کہ یہ ابتدا میں اتنے خفیف ہوتے ہیں کہ والدین ان پر توجہ ہی نہیں دیتے۔ اکثر یہی سمجھ لیا جاتا ہے کہ بچے کی طبیعت ناساز ہے، کچھ دن میں ٹھیک ہوجائے گا لیکن بچہ تو نفسیاتی طور پر بہت زیادہ بیماری کا شکار ہوچکا ہوتا ہے۔
موبائل فون پر کھیل کھیلنے سےperipheral vision (سر کو گھمائے بغیر ادھر ادھر دیکھنے کی صلاحیت) بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے، جس کی وجہ سے اگرچہ ایک مخصوص جانب دیکھنے کی صلاحیت بڑھتی ہے، مگر central vision کمزور ہوتی ہے۔ اس وجہ سے آنکھوں کے کام کا توازن بگڑ جاتا ہے اور بینائی کے کئی مسائل کا خدشہ رہتا ہے۔
۱یسے بچے سوشل میڈیا پر رہنے کی وجہ سے اپنے دوستوں اور رشتے داروں وغیرہ سے کم ملتے ہیں۔ لہٰذا، رفتہ رفتہ وہ پہلے سوشل اینزائٹی اور پھر تنہائی (loneliness) کے مریض بن جاتے ہیں۔ تنہائی آدمی کو نہ صرف آگے بڑھنے سے روکتی ہے، بلکہ یہی اگر زیادہ بڑھ جائے تو شدید ڈپریشن اور پھر خودکشی کی محرک بن سکتی ہے۔