لاہور: ڈالر کی قیمت میں کمی یا اضافے سے اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا تعلق نہیں، جب تک ڈالر کی قیمت میں استحکام نہیں آئیگا تب تک مہنگائی پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔
بدقسمتی سے ڈالر کی قیمت میں اضافے کا بہانہ بنا کر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے جو درست نہیں، حکومت پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال بنائے اور بہتر پالیسی بنا کرمہنگائی کنٹرول کرے، ریٹیلرز پر دباؤ ڈالنے سے اشیائے خورونوش کی قیمتیں کم نہیں ہوگی، معاشی استحکام کیلیے شرح سود 8 فیصد کی جائے۔
امپورٹ، ایکسپورٹ پر ڈیوٹی ختم کرکے سیلز ٹیکس لیا جائے،ان خیالات کا اظہار شرکانے ’’مہنگائی کا خاتمہ کیسے ممکن؟‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم نے کہا ہے کہ یورپ میں 3، امریکا 5، بھارت 6، برازیل 8، جاپان منفی 1 جبکہ پاکستان میں 22 فیصد شرح سود ہے ایسے میں معیشت کیسے چل سکتی ہے؟ شرح سود 8 سے 9 فیصد تک کیا جائے، بجلی کے ریٹ نیچے لائے جائیں، ٹیکس کم کیا جائے، لوگوں کو ریلیف دیا جائے، امپورٹ،ایکسپورٹ ڈیوٹی ختم اور سیلز ٹیکس لگا کر مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔
ایف پی سی سی آئی کے سابق ریجنل چیئرمین ڈاکٹر محمد ارشد نے کہا کہ ڈالر کے ریٹ میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے بے یقینی کی صورتحال ہے جب تک ڈالر کا ریٹ ایک جگہ نہیں رکتا تب تک ریٹیل پر اس کا اثر نہیں پڑے گا نہ ہی قیمتوں میں کمی آئیگی، ڈالر کا 276 تک آنے کی کوئی پریکٹیکل وجہ نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کمی نیچے تک منتقل نہیں ہوئی۔
صدر کریانہ مرچنٹ ایسوسی ایشن پنجاب حافظ عارف نے کہاکہ مہنگائی کی وجہ بیڈ گورننس اور استحصالی نظام ہے، لوگوں کی قوت خرید ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے، غریب کیلیے بدترین مہنگائی ہے، حکومت نے تو آٹا، گھی، چینی کو بھی لگژری آئٹم سمجھ لیا ہے، لوگوں کیلئے روٹی کھانا مشکل ہوگیا ہے۔