اسلام آباد: نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے رواں مالی سال کے سالانہ ٹیکس وصولی کا ہدف جو کہ 9.4 ٹریلین (9ہزار 400 ارب) روپے رکھا گیا تھا اسے کم قرار دیا ہے اور حکام سے کہا کہ وہ اگلے مالی سال میں ٹیکس وصولیوں کو15ٹریلین روپے ( 15 ہزار ارب روپے )تک بڑھانے کے منصوبے پر کام کریں۔
وزیر کے ریمارکس پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (PRAL) کی تنظیم نو کے حوالے سے ایک اندرونی اجلاس کے دوران سامنے آئے، ڈاکٹر شمشاد اختر نے ایف بی آر کے ممبران کی کارکردگی پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔
ایف بی آر نے جولائی تا اکتوبر میں 2.75 ٹریلین روپے کی وصولی کے ساتھ مسلسل چوتھے مہینے اپنے محصولات کے ہدف سے تجاوز کیا۔ محصولات ہدف سے 68 ارب روپے زیادہ ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر نے ایف بی آر سے کہا کہ اسے اگلے مالی سال میں 15 ہزار ارب روپے کی ٹیکس وصولی کا ہدف رکھنا چاہیے۔
ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان رئیل اسٹیٹ اور زراعت کے شعبوں سے محصولات کی وصولی کو بڑھا کر جی ڈی پی کے 3 فیصد کے برابر اضافی ٹیکس جمع کر سکتا ہے۔ آئین کے تحت زراعت صوبائی معاملہ ہے اور وفاقی حکومت کو اس پر ٹیکس لگانے کا اختیار نہیں ہے۔
ٹیکس دہندگان نے ٹیکس سال 2023 کے لیے انکم ٹیکس قانون کے سیکشن 7E کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے مذکورہ درخواستوں کو اس ہدایت کے ساتھ نمٹا دیا کہ ایف بی آر کو درخواست گزاروں کے خلاف ٹیکس کی ادائیگی کے حوالے سے کوئی زبردستی اقدام نہیں کرنا چاہیے۔
یہ پیش رفت سندھ ہائی کورٹ کے غیر منقولہ اثاثوں پر ڈیمڈ انکم ٹیکس کے خلاف حکم امتناعی دینے کے فیصلے کے بعد سامنے آئی ہے۔ یہ حکم امتناع اس پیر کو دیا گیا تھا، جس نے ایف بی آر کو ان لوگوں کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے روک دیا جو اپنی ٹیکس واجبات کا 50 فیصد ادا کرتے ہیں۔
فنانس ایکٹ 2022 کے ذریعے سیکشن 7E متعارف کرایا گیا تھا، جس کے تحت رہائشی افراد کے پاس مارکیٹ ویلیو 25 ملین روپے سے زیادہ کی غیر منقولہ جائیدادیں، ان کی مارکیٹ ویلیو کے 5فیصد کے برابر رقم پر 20 فیصد ٹیکس کے ساتھ مشروط ہیں۔
قانونی چیلنجوں کی وجہ سے ایف بی آر نے اب تک ڈیمڈ انکم ٹیکس کی مد میں 25 ارب روپے کے سالانہ ہدف کے مقابلے میں 1 بلین روپے سے بھی کم جمع کیا ہے۔ کمپنیوں کی ریٹرن فائل کرنے کی آخری تاریخ 31 دسمبر ہے اور اس وقت تک کلیکشن میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ نے ایف بی آر کے ممبران یعنی گریڈ 21 اور 22 گریڈ میں خدمات انجام دینے والے افراد کی کارکردگی پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ انھوں نے ایف بی آر سے PRAL کی تنظیم نو کے بارے میں تجاویز بھی طلب کیں۔
ایف بی آر نے PRAL کی تنظیم نو کے لیے پہلے ہی دو کمیٹیاں قائم کر دی ہیں جن کا مقصد کم از کم 25% افرادی قوت کی چھانٹی کرنا ہے۔ وزیر نے چھانٹی کے لیے مخصوص تجاویز کی ہدایت کی ہے جس کے نتیجے میں تقریباً 900 موجودہ ملازمین میں سے تقریباً 220 ملازمین کو برطرف کیا جا سکتا ہے۔