آج کے جدید دور میں ہم نے کچھ تیز ترین رفتار کے حامل انجنز تیار کیے ہیں جیسے کہ بلیٹ ٹرین، تیز ہوائی جہاز، الٹرا فاسٹ سپر سونک طیارے وغیرہ۔ اور اب ہم ہائپر لوپ اور ویکٹرین بنانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں جو تیز ترین ہوائی جہاز سے بھی تیز ہونگی لیکن پھر بھی ایک چیز ایسی ہے جو رفتار کے لحاظ سے سب کو مات دے دیتی ہے اور وہ ہے روشنی۔
آپ میں سے کچھ نے اس کے بارے میں نہیں سوچا ہو گا لیکن بہت سے لوگ ضرور سوچتے ہیں کہ روشنی کی رفتار سے سفر کرکے وقت اور مکان کی حدود سے گزر کر کائنات کا تجربہ کرنا کیسا ہوگا؟۔
تصور سے قطع نظر اگر حقیقت کی بات کی جائے تو انسان روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کرسکتا اور اگر کر بھی لے تو زندہ نہیں رہ سکتا تاہم اگر آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کو لیا جائے تو خود کو روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے تصور کرنا کوئی حرج کی بات نہیں۔
مزید برآں نظریہ اضافیت ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ اگر کوئی شے روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو اس کی کمیت(mass) یعنی جسم کا اندرونی وزن تیزی سے بڑھ جائے گا۔ واضح رہے کہ روشنی کی رفتار 299,792 کلومیٹر فی سیکنڈ یعنی 186,282 میل فی سیکنڈ ہے اور جب کوئی شے اس رفتار سے حرکت کرتی ہے تو اس کی کمیت لامحدود ہوتی ہے جس کیلئے توانائی بھی لامحدود درکار ہوتی ہے اور یہ موجودہ مظاہر میں کسی بڑے حجم کی چیز کیلئے ناممکن ہے۔
لیکن فرض کرلیتے ہیں کہ آپ مریخ، جس کا زمین سے فاصلہ 450 ملین کلومیٹر ہے، کا سفر کرکے واپس آرہے ہیں اور وہ بھی 90 فیصد روشنی کی رفتار سے بغیر رکے۔ تو وہاں جانے اور زمیں پر واپس آنے میں آپ کو تقریباً 16 منٹ اور 40 سیکنڈ لگیں گے۔ لیکن ذرا ٹھہریے، مزے کی بات یہ ہے کہ یہ 16 منٹ اور 40 سیکنڈز آپ کے سفر کا مشاہدہ کرنے والے زمین پر لوگوں کیلئے ہونگے۔ آپ کیلئے مریخ جاکر واپسی آنے کے سفر کا دورانیہ صرف 8 منٹ اور 20 سیکنڈز کا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روشنی کی رفتار سے سفر کے دوران وقت کا دائرہ کار بڑھ جاتا ہے، بالفاظ دیگر آپ جتنی تیزی سے سفر کریں گے، وقت آپ کیلئے اتنا ہی سست ہوجائے گا۔ لہٰذا یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ ایسے حالات میں آپ کی عمر میں اضافے کا عمل بھی سست ہوجائے گا۔