Trending Now

نصابی تعلیم کے ساتھ جسمانی سرگرمیوں کی اہمیت

وری ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اسکولوں میں جسمانی سرگرمیاں ایک دیرینہ بحث کا موضوع رہی ہے، جس کے حامی اس کی لازمی شمولیت کی وکالت کرتے ہیں اور ناقدین تعلیمی نصاب میں اس کی ضرورت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ سوال کہ آیا ’’اسکولوں میں جسمانی سرگرمیوں کو لازمی قرار دیا جانا چاہیے‘‘ ایک کثیرالجہتی مسئلہ ہے جس کےلیے اس کے فوائد، نقصانات اور طلبا کی فلاح و بہبود اور ترقی پر مجموعی اثرات کے جامع تجزیہ کی ضرورت ہے۔

اسکولوں میں لازمی جسمانی سرگرمیوں کے حامی طلبا کی جسمانی صحت، ذہنی تندرستی اور مجموعی تعلیمی کارکردگی کےلیے اس کے متعدد فوائد پر زور دیتے ہیں۔ جسمانی سرگرمیوں میں باقاعدگی سے مشغولیت کا تعلق، نیز بچوں اور نوعمروں میں قلبی صحت کی بہتری، مضبوط پٹھوں اور ہڈیوں، موٹاپے اور متعلقہ صحت کے مسائل کے خطرے کو کم کرنے سے ہے۔ جسمانی سرگرمیوں میں مشغول ہونا طلبا کو ضروری اعصابی مہارتیں، جسمانی اعضا کی آپس میں ہم آہنگی اور چستی پیدا کرنے میں مدد کرکے ان کی مجموعی جسمانی صحت میں معاون ہے۔ مزید برآں، جسمانی سرگرمی ذہنی صحت پر مثبت اثر ڈال کر ذہنی تناؤ، بےچینی اور افسردگی کو کم کرتی ہے، جب کہ مزاج، ذہنی اور علمی افعال کو بڑھاتی ہے۔ یہ فوائد طلبا میں صحت مند طرزِ زندگی کو فروغ دینے کےلیے اسکول کے نصاب میں جسمانی سرگرمیوں کو شامل کرنے کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں، جسمانی سرگرمیاں طلبا میں سماجی مہارتوں، مشترکہ گروہی کاموں اور قائدانہ خصوصیات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دیگر طلبا کے ساتھ کھیلوں یا گروہی مشقوں میں حصہ لینا طلبا کو اپنے ہم مرتبہ ساتھیوں کے درمیان تعاون، مواصلات اور باہمی احترام کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ طلبا کھیل کود، نظم و ضبط اور اہداف کے تعین میں قابلِ قدر سبق سیکھتے ہیں جو ان کی ذاتی اور سماجی ترقی کےلیے لازمی ہیں۔ جسمانی سرگرمیوں کے ذریعے طلبا زندگی کی ضروری مہارتیں جیسے کہ وقت کا بہتر انتظام، استقامت، مزاج میں نرمی اور لچک بھی حاصل کرتے ہیں، جو کمرۂ جماعت سے باہر ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں منتقل کی جاسکتی ہیں۔

اسکول کے اوقات کار میں طلبا سے بہت زیادہ تعلمی توقعات، درحقیقت انھیں ذہنی طور پر تھکا دینے اور جسمانی طور پر پریشان کن ہوسکتی ہیں۔ سیکھنے کی سرگرمیوں میں مصروف کئی گھنٹے گزارنے کے بعد طلبا اکثر تھکاوٹ اور بعض اوقات مایوسی محسوس کرتے ہیں۔ یہ تھکن سیکھنے کے عمل پر ان کی توجہ مرکوز کرنے اور نئی معلومات کو مؤثر طریقے سے جذب کرنے کی صلاحیت میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

راقم کا مشاہدہ ہے کہ اسکول کے نظام الاوقات میں جسمانی سرگرمیوں کی شمولیت طلبا کےلیے اپنی اضافی توانائی کو مثبت انداز میں منتقل کرنے کےلیے اہم مقام کا کام کرتی ہیں۔ جسمانی سرگرمیوں میں مشغول ہونے سے وہ ذہنی تناؤ کو چھوڑ کر اپنے جسم کو دوبارہ متحرک کرسکتے ہیں اور اپنے اذہان کو تروتازہ بناسکتے ہیں۔ ورزش اینڈورفنز (endrophins / درد ختم کرنے والے مرکبات) کے اخراج کو متحرک کرتی ہے اور مزاج اور علمی افعال کو بڑھاتی ہے۔ نتیجتاً ورزش طلبا کو اپنے تعلیمی کاموں میں نئے سرے سے توجہ، نئی قوت اور ایک نئے تناظر کے ساتھ واپس آنے کے قابل بناتی ہے۔ لہٰذا! اسکول میں جسمانی سرگرمیوں کے باقاعدہ عوامل کو شامل کرنا نہ صرف جسمانی تندرستی کو فروغ دیتا ہے بلکہ یہ ایک ایسے ضروری وقفے کے طور پر بھی کام کرتا ہے جو طلبا کو سیکھنے کےلیے دوبارہ تقویت دیتا ہے اور انھیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ نئے جوش اور ولولے کے ساتھ اپنی پڑھائی کا سلسلہ آگے بڑھا سکیں۔

رسمی تعلیمی نظام کے دائرے میں ہاورڈ گارڈنر کے متعدد ذہانتوں کے نظریے سے جسمانی حرکیات والی ذہانت بہت زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ یہ ذہانت جسمانی حرکات، مختلف اعضا کی ہم آہنگی اور جسمانی مہارت کے اُن پہلوؤں سے فائدہ اٹھانے کی اہمیت پر زور دیتی ہے جن کو روایتی تعلیمی نظام میں اکثر کم اہمیت دی جاتی ہے۔ جسمانی سرگرمیوں کو نصاب میں شامل کرنا طلبا کےلیے ذہانت کی اس شکل کو دریافت کرنے اور اس کی نشوونما کےلیے ایک راستے کا کام کرے گا۔ مثال کے طور پر، جہانگیر خان (ایک قابل ذکر پاکستانی مایہ ناز اسکواش کھلاڑی) کی کامیابی جسمانی حرکیاتی ذہانت کی مرہونِ منت ہے۔ اسکواش میں جہانگیر خان کا غیر معمولی کیریئر کھیلوں کے دائرے میں جسمانی حرکیاتی ذہانت کا مظہر ہے۔ اپنے پورے کیریئر میں جہانگیر خان نے اسکواش کے کھیل پر غلبہ حاصل کیا اور متعدد چیمپئن شپس جیت کر ناقابل شکست ریکارڈ قائم کیے۔ ان کی کامیابی تعلیمی فریم ورک کے اندر ذہانت کی اس شکل کو پہچاننے اور پروان چڑھانے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ ان جیسی شخصیات اور ان کی جسمانی حرکیاتی ذہانت کو تسلیم کرنے سے تعلیمی ادارے تعلیمی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی قابلیت کی بھی قدر کرسکتے ہیں۔

اس کے برعکس، مخالفین کا استدلال ہے کہ تعلیمی اہداف، جانچ اور امتحانات پر زور اکثر اسکول کے نصاب میں جسمانی سرگرمیوں کو نظر انداز کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جسمانی تعلیم کےلیے لازمی اوقات وقف کرنے کے بجائے بنیادی تعلیمی مضامین کےلیے محدود وقت اور وسائل مختص کیے جانے چاہئیں۔ کچھ ناقدین یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ جسمانی سرگرمیوں کی کلاسیں تمام طلبا کی متنوع ضروریات اور دلچسپیوں کو پورا نہیں کرسکتی، جو ممکنہ طور پر جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے ان مضامین میں دلچسپی لیتے ہوئے پڑھائی سے دستبردار یا ہچکچاہٹ کا باعث بنتی ہیں۔ مزید برآں، جسمانی سرگرمیوں کے اساتذہ کی قابلیت اور تربیت کے حوالے سے بھی خدشات پیدا ہوتے ہیں، کیوں کہ وسیع پیمانے پر معیاری جسمانی سرگرمیوں کے پروگراموں کی فراہمی میں ان کی تاثیر مختلف ہوتی ہے۔

ان تنقیدوں کے باوجود اسکولوں میں لازمی جسمانی سرگرمیوں کے فوائد نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔ جسمانی سرگرمیوں کو نصاب میں ضم کرنے سے نہ صرف صحت مند طرز زندگی کو فروغ ملتا ہے بلکہ طلبا کی مجموعی ترقی اور ہمہ گیر شخصیت کی تشکیل میں بھی مدد ملتی ہے۔ اسکولوں کو اچھی طرح سے تعلیم فراہم کرکے تعلیمی سختی اور جسمانی تندرستی کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس میں فکری اور جسمانی ترقی دونوں کا حصول شامل ہو۔ لچک دار اور متنوع جسمانی سرگرمیوں کے پروگرام جو انفرادی دلچسپیوں اور صلاحیتوں کو پورا کرتے ہیں، طلبا میں شمولیت اور مشغولیت سے متعلق خدشات کو دور کرسکتے ہیں۔

اسکولوں میں لازمی جسمانی سرگرمیوں کی شمولیت طلبا کی جسمانی صحت، سماجی مہارتوں اور مجموعی طور پر بہبود کےلیے بہت ضروری ہے۔ تعلیمی ماحول میں جسمانی سرگرمیوں کے اردگرد مسائل اور تنقیدوں کو تسلیم کرتے ہوئے، جسمانی تندرستی، ذہنی صحت اور مجموعی ترقی کے حوالے سے جسمانی سرگرمیاں جو طویل المدتی فوائد پیش کرتی ہیں، اسے جامع تعلیم کا ایک اہم جزو بھی بناتی ہے۔ جسمانی سرگرمیوں کے پروگراموں کو ترجیح دینے اور مناسب طریقے سے وسائل فراہم کرنے سے اسکول اس بات کو یقینی بناسکتے ہیں کہ طلبا اچھی تعلیم حاصل کریں جو ان کی مجموعی صحت کو فروغ دے اور انھیں زندگی کے تمام پہلوؤں میں کامیابی کےلیے تیار کرے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔بلاگر ایم اے اردو (پشاور یونیورسٹی)، ایم اے سیاسیات (پشاور یونیورسٹی) اور ایم ایڈ (آغاخان یونیورسٹی، کراچی) ڈگری کے حامل ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے شعبۂ تعلیم اور آج کل آغا خان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ، کراچی سے بطورِ منیجر ایگزامینیشن ڈیولپمنٹ وابستہ ہیں۔ ان سے ای میل zmuluka@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

Read Previous

14 ہزار فلسطینیوں کی شہادت کے بعد غزہ میں 4 روزہ جنگ بندی کا آغاز ہوگیا

Read Next

صنعتوں کو ضرورت کا پانی مہیا کرنے کیلیے لائحہ عمل بنانے کی ہدایت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *