Trending Now

ممتا یا ملازمت۔۔۔!

ایک عورت کے لیے لڑکی سے ماں بننے کا سفر نہ صرف ایک منفرد اور خوب صورت احساس ہے، بلکہ یہ ماں بننے کا یہ مقام اس کی زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کر دیتا ہے۔

عورت کی زندگی میں ماں بننا ایک ایسی تبدیلی ہے جس میں عورت کو بہ یک وقت بہت سی خوشیوں، ممتا سے بھرے جذبات کے ساتھ مختلف قسم کے چیلنج اور بچے کی پرورش کے حوالے سے متعدد خدشات اور تحفظات کا بھی سامنا ہوتا ہے، خصوصاً جب کہ وہ ملازمت پیشہ ہو۔

یقیناً ماں بننا مکمل طور پر زندگی بدل دینے والا فیصلہ ہے۔ جب کہ ملازمت پیشہ ماؤں کے لیے زندگی میں آنے والی یہ تبدیلی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ وہ وورکنگ مومز جن کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے دادی نانی، پھوپی یا خالہ جیسے رشتے موجود ہوتے ہیں۔

ان کو تو یقیناً  ایک حد تک سکون مل جاتا ہے، لیکن ان کے مسائل دوسرے قسم کے ہوتے ہیں۔ جب کہ جاب کرنے والی وہ خواتین جن کے بچوں کے لیے نانی دادی کی آغوش میسر نہ ہو، ان کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے آخری امید ’ڈے کیئر سینٹر‘ ہی رہ جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے سوسائٹی میں ڈے کیئرز یا چائلڈ کیئر سینٹرز کا نہ ہونا خواتین کو بچے کی پیدائش کے بعد دوبارہ کام شروع کرنے میں ایک بڑا چیلنج ہے جو کہ واضح طور پر ان کے کیریئر کی کام یابی میں بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے، اور اس کا اثر ان کی ذاتی زندگی، آنے والے بچے اور پورے خاندان پر بھی پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا اس صورت حال کے خاتمے کے لیے ٹھوس حل تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ہمارے معاشرے میں ڈے کیئر سینٹر، نرسری اور چائلڈ کیئر سینٹر جیسی سہولتوں کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں رہی، لیکن ضرورت اور گزرتے وقت کے ساتھ گذشتہ دس بارہ سالوں میں اب نوکری کرنے والی خواتین کے نوزائیدہ اور چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ڈے کیئر، نرسریز اور کنڈرگارٹن جیسے اداروں کے قیام کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

لیکن حکومت سے منظور شدہ ڈے کیئرسینٹر اور تربیت یافتہ نرسری اور کنڈرگارٹن کے عملے کی شدید کمی اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق فرانس میں ’ڈے کیئر‘ کی زبردست مانگ ہے، لیکن اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ڈے کیئر سینٹر کے لیے مناسب جگہیں دست یاب نہیں ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق تین سال سے کم عمر کے صرف 32 فی صد بچوں کو ڈے کیئر تک رسائی حاصل ہے۔ یہ ایک تشویش ناک صورت حال ہے، کیوں کہ یہ چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم کے معیار کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ اگر یہ صورت حال ایک ترقی یافتہ معاشرے کی ہے تو ہمارے ملک میں کیا صورت حال ہو سکتی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ڈے کیئر یا نرسری جیسی سہولتیں نہ ہونے کے باعث جاب کرنے والی ماؤں کو ایک مشکل انتخاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملازمت پیشہ یا باہر کام کرنے والی مائیں اپنے بچے کے لیے محفوظ جگہ نہ ملنے کے خوف کے ساتھ کام پر واپس جائیں، یا اپنے بچے کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر رہیں؟ اس کشمکش کے نتائج ان کے کیریئر کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی اور نفسیاتی صحت پر بھی پڑ سکتے ہیں۔

ہمارے ملک میں یہ صورت حال کئی عوامل کی وجہ سے ہے، جیسا کہ چائلڈ کیئر سینٹرز کی مسلسل بڑھتی ہوئی ضرورت، ڈے کیئر کے عملے اور آلات کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے فنڈز کی کمی وغیرہ۔ اس کے علاوہ ڈے کیئر کی سہولت میسر ہونے کے باوجود ایسی ماؤں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ’ڈے کیئر‘ اور ’نرسری‘ کے لیے  تربیت یافتہ عملے کی کمی، بچوں کی سیکیورٹی اور ان کی دیکھ بھال کے تسلی بخش انتظامات کا نہ ہونا بھی ہے، جو جاب کے دوران مسلسل ان کو ذہنی دباؤ کا شکار بنائے رکھتا ہے اور نتیجتاً بچے کے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی حادثے یا مسئلے کی صورت میں گھروالوں کے ساتھ ساتھ وہ خود کو ہی موردِالزام ٹھہرانے لگتی ہیں۔ اپنے گھر اور بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے محنت کرنے والی خواتین خود پر فخر کرنے کے بہ جائے ایسے حالات میں احساس ندامت کا شکار ہو جاتی ہیں کہ بچے کو پہنچنے والے نقصان کی ذمہ دار وہی تو ہیں!

ان تمام حالات میں ان کے لیے کام اور نجی زندگی کا سنگم ایک حقیقی چیلنج بن جاتا ہے، بعض اوقات انہیں مشکل سمجھوتا کرنے یا بچوں کی نگہداشت اور دیکھ بھال کے لیے غیر مؤثر اور غیرمتوقع انتظامات کا سہارا لینے پر مجبور کرتا ہے۔

ڈے کیئر سینٹرز کی کمی ایک اور بڑی مشکل یہ کھڑی کر دیتی ہے کہ زچگی کی چھٹی کے بعد کام پر واپس آنے کی خواہش مند مائیں بچوں کی مناسب دیکھ بھال کے حل کی عدم موجودگی کے باعث اپنی ذمہ داریوں کے مطابق ملازمت تلاش کرتی ہیں، جو کہ ایک اور بڑا مرحلہ ہوتا ہے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی، ’ڈے کیئر‘ کی کمی کے باعث کام کرنے والی ماؤں کے لیے عام جذباتی نتائج تناؤ اور احساسِ جرم کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ بچوں کی نگہداشت کا مناسب حل تلاش کرنے اور اس کا انتظام کرنے کا تناؤ، اور اپنے بچوں کی نگہداشت کا بہترین ماحول پیش کرنے کے قابل نہ ہونے کا جرم، ماں کی جذباتی بہبود کو متاثر کر سکتا ہے۔

ماں کے رشتے سے منسلک ہونی خواتین کے لیے چیلنج تو بہت ہوتے ہیں، لیکن یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بحیثیت معاشرہ کس طرح ان ایسی ماؤںکی مدد کر سکتے ہیں، جن پر بچوں کی نگہداشت اور دیکھ بھال سے لے کر گھرچلانے تک کی دُہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہم بچوں کی دیکھ بھال کی متبادل شکلوں کے بارے میں بات کر سکتے ہیں، جیسے کہ ’مِیڈ‘ یا ’آیا‘ کا انتظام کرلینا، لیکن اگر حساب کتاب کیا جائے، تو اس کا بجٹ پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔

عالمی نقطہ نظر کو اپنانے اور ان حل کو نافذ العمل کرنے سے نجی اور سرکاری اداروں میں مؤثر ڈے کیئر کا نظام متعارف کرانے سے جاب کرنے والی خواتین کی مدد کی جا سکتی ہے۔ اس طرح کام کرنے والی ماؤں کو ان کی پسند کی جاب کرنے میں مدد کرنا ممکن ہو گا کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگیوں کو ماؤں کے طور پر ان کے کردار سے ہم آہنگ کر سکیں۔

دوسری جانب  ڈے کیئر چلانے کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مالی وسائل میں اضافہ، خاص طور پر ان کے عملے کے لیے بہتر معاوضہ اور بچوں کی سیکیورٹی اور دیکھ بھال کے لیے مناسب طور پر کیمرے نصب کرنا ضروری ہے۔

اس کے ساتھ ان کیمروں تک ’ورکنگ مدرز‘ کو رسائی دینا کہ جہاں اور جب چاہیں اپنے بچے کی ہونے والی دیکھ بھال اور انتظامات سے مطمئین رہیں۔ ساتھ ہی ڈے کیئرز کے تریب یافتہ عملے جیسے پیشوں کو مزید پرکشش بنانے سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس شعبے میں تربیت حاصل کرنے کی ترغیب مل سکتی ہے، اور ملازمین کو کام کے بہتر حالات پیش کر کے انہیں متقل بنیادوں پر رکھا جا سکتا ہے۔

اس سب کے لیے مقامی حکام، پبلک سیکٹر، کنڈر گارٹن اور نرسریز کے پیشے سے وابستہ افراد اور والدین کی تنظیموں کے درمیان قریبی تعاون ضروری ہے اگر ان تمام فریقین کو اس کمی کا پائیدار حل تلاش کرنا ہے، اور اس طرح ماؤں اور بچوں کی نشوونما کو فروغ دینا مکمل ہوسکتا ہے۔

تصور کریں کہ ایک ایسی خاتون جس نے تعلیم حاصل کی ہے، اپنا پیشہ ورانہ کیریئر بنانے کے لیے سند حاصل کی ہے، لیکن وہ اپنی نجی زندگی بھی مکمل جینا چاہتی ہے، اپنے ایک خاندان کی صورت رہنا چاہتی ہے، اپنے لیے بچوں کی دیکھ بھال کے نظام کی کمی کی وجہ سے خود کو اس کوشش میں رکاوٹ محسوس کرتی ہے… یا اس کا کیریئر مختصر ہوگیا، کیوں کہ اسے اپنے پیشہ ورانہ کیریئر اور اپنے خاندان کے درمیان ایک اہم انتخاب کرنا ہے۔

بلاشبہ، ایسے مرد، باپ بھی ہیں، جو اپنی پیشہ ورانہ ترقی میں بڑھ چڑھ کر خواتین اور ماؤں کا ساتھ دے رہے ہیں، لیکن عام طور پر یہ بوجھ تمام تر ترقی پسند خیالات کے باوجود ماؤں کے کندھوں پر پڑتا ہے۔ ایک ماں اس وقت پرسکون اور پر اعتماد محسوس کرے گی جب اسے یقین ہو کہ اس کا بچہ ایک ایسی محفوظ ترتیب گاہ میں ہے جو اسے وہ تمام  لوازمات فراہم کرے گا جن کی اسے بچپن میں کھلنے اور سیکھنے کے لیے ضرورت ہے۔

Read Previous

اعظم پر جرمانہ؛ شائقین کرکٹ نے بورڈ کا آڑے ہاتھوں لے لیا

Read Next

فٹبالر کا 4 سالہ بیٹا سپر اسٹار بن گیا، 40 لاکھ انسٹاگرام فالوورز

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *