اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ مشرف مارشل لا کو قانونی کہنے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے، کارروائی صرف تین نومبر کے اقدام پر کیوں کی گئی؟ تین نومبر کو صرف ججوں پر حملہ ہونے پر کارروائی ہوگی تو فئیر ٹرائل کا سوال اٹھے گا۔
سپریم کورٹ میں خصوصی عدالت کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف دائر کردہ اپیل پر سماعت ہوئی۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین نے حامد خان کے دلائل دیے اور کہا کہ خصوصی عدالت نے 17 دسمبر 2019ء کو پرویز مشرف کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ تو آج بھی برقرار ہے ہائیکورٹ کے حکم میں خصوصی عدالت کے فیصلے کو ختم کرنے کا نہیں کہا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کو کالعدم کرنے کی تو استدعا ہی نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی سماعت کے دوران خصوصی عدالت کا فیصلہ آچکا تھا، سارے فیصلے میں خصوصی عدالت کے فیصلے کا ذکر نہیں۔
وکیل نے کہا کہ اسی وجہ سے پرویز مشرف نے بھی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے ایک روز کا نوٹس دیا، کیا ہائی کورٹ میں ایک روز کا نوٹس دیا جاتا ہے؟ فل کورٹ کی تشکیل کیلئے معاملہ بھجواتے ہوئے تاریخ کیسے دی جا سکتی ہے؟ ممکن ہے چیف جسٹس فل کورٹ سے متفق ہو یا نہ ہو، خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد درخواست میں ترمیم ہونی چاہیے تھی، خصوصی عدالت صرف کیس کے لیے بنائی گئی تھی جو فیصلہ سناتے ختم ہوگئی۔
چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے متفق تھے؟ اس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہائی کورٹ فیصلے کو تسلیم کرتی تو پھر یہ اپیل نہ کرتے، پرویز مشرف کے وکیل آج بھی اپیل پر کھڑے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت نے اعتراض کیا تھا یا سیم پیج پر تھی ؟ خصوصی عدالت کے فیصلے کے بارے میں ہائی کورٹ کو بتانا تو تھا، اگر آئین غصب ہو جائے تو پھر عدالت 1956ء تک بھی جا سکتی ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ رشید اے رضوی صاحب ہمیں سچ بولنا چاہیے، اگر کسی فیصلے کو ختم ہونا ہے تو اسے ہونا چاہیے جس نے مارشل لاء کو راستہ دیا اور ان ججوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو ماضی میں ہو چکا اسے میں ختم نہیں کرسکتا کیا ساؤتھ افریقا میں سب کو سزا ہی دی گئی تھی؟ قوم بننا ہے تو ماضی کو دیکھ کر مستقبل کو ٹھیک کرنا ہے، سزا اور جزا اوپر بھی جائے گی، کئی بار قتل کے مجرمان بھی بچ نکلتے ہیں، وکیل آکر بتائیں آئین توڑنے والے ججوں کی تصویریں یہاں کیوں لگی ہیں؟ جج ہی یہاں بیٹھ کر کیوں پوائنٹ آؤٹ کریں ان کے ساتھ میڈیا بھی ذمہ دار ہے ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے، بتائیں کتنے صحافی مارشل لا کے حامی کتنے خلاف تھے؟ ہمیں تاریح سے سیکھنا چاہیے بچوں کو بھی سیکھانا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تاریخ پھر یہ ہے کہ جب کوئی مضبوط ہوتا ہے اس کے خلاف کوئی نہیں بولتا، جب طاقت ور کمزور پڑ جاتا ہے اس کے بعد عاصمہ جیلانی والا فیصلہ آجاتا ہے۔
وکیل رشید اے رضوی نے کہا کہ میں ججوں کے کنڈکٹ کا معاملہ بھی عدالت کے نوٹس میں لے آیا ہوں، پرویز مشرف کے اقدام کو جواز فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ سندھ ہائیکورٹ بار کے وکیل رشید اے رضوی کے دلائل مکمل ہوگئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا عدالتی معاون نے بھی لاہور ہائی کورٹ میں جاری کارروائی کی حمایت کی؟ وفاق نے بھی کارروائی پر اعتراض نہیں کیا، اس وقت حکومت کس کی تھی؟ چیف جسٹس وکلا نے جواب دیا اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب! اب ہم آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے، آپ اپنے گھر سے ہوئی غلط بات کو غلط کہنے کے لیے کھڑے ہیں اسی لیے آپ کا قد بڑا ہے۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں سب سیم پیج پر تھے۔ اس پر جسٹس منصور نے پوچھا کہ وہ سیم پیج کیا تھا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف جب کارروائی شروع ہوئی اس وقت کی حکومت بھی کارروائی نہیں چاہتی تھی، اس وقت کی حکومت کو بھی اس عدالت نے کارروائی کی طرف مائل کیا، سنگین غداری کیس جب شروع ہوا تو اس وقت کس کی حکومت تھی؟ حامد خان نے کہا کہ اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کے باوجود انہوں نے 12 اکتوبر کو کارروائی کا حصہ نہیں بنایا؟ تاریخ میں نہیں جانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کب تک کہیں گے تاریخ میں نہیں جانا چاہیے، ہمیں اب ان باتوں پر جانا ہے کہ کس نے کیا کیا، آج ہم ملک کی 76 ویں سالگرہ منارہے ہیں میں آپ کو سننا چاہتا ہوں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پرویز مشرف نے آئین توڑا اور اسمبلیوں کو معطل کیا، ان ججز کو کیا کہیں گے جنہوں نے اس سارے عمل کو قانونی جواز فراہم کیا، بارہ اکتوبر کے اقدام کو اسی عدالت نے راستہ دیا، مشرف مارشل لاء کو قانونی کہنے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے، کارروائی صرف تین نومبر کے اقدام پر کیوں کی گئی؟ تین نومبر کو صرف ججوں پر حملہ ہونے پر کارروائی ہوگی تو فئیر ٹرائل کا سوال اٹھے گا۔
چچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ افریقا اور جرمنی نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا جزا سزا تو اللہ دے گا کم از کم تسلیم تو کریں کیا صحیح تھا کیا، اسکولوں میں بھی آئین پڑھایا جانا چاہیے، انگلینڈ میں اب موومنٹ آرہی ہے کہ غلطیوں کو مانیں، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا اصول درست نہیں ہوسکتا، جنہوں نے بھی ڈکٹیٹر کے فیصلوں کو تسلیم کیا ان کا بتائیں، وکلا کا کام ہے عدالت کو بتانا میڈیا بھی ذمہ دار ہے، قانون کے توڑنے کو درست نہیں کہا جاسکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مائی لارڈ نے درست کہا قومیں غلطیوں سے سیکھتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت بھی بہت سے لوگ تھے جو مضبوط رہے۔
بعدازاں پرویز مشرف کے وکیل کی استدعا پر سماعت دس جنوری تک ملتوی کردی گئی۔ عدالت نے آج کا حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کے وکیل نے بتایا ہے انہیں مشرف نے خصوصی عدالت کا فیصلہ چیلنج کرنے کی ہدایت کی تھی، وکیل کے مطابق مشرف نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر انحصار کی ہدایت نہیں کی، مشرف کے وکیل نے چھٹیوں کے بعد تاریخ مانگی، مشرف کے وکیل اس دوران مرحوم جنرل کی فیملی سے رابطے کی کوشش کریں گے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ مشرف کے وکیل سے عدالتی سوال ہے کہ ملزم کی وفات پر کیا اپیل غیر موثر نہیں ہوئی؟ کیا سزا برقرار رہنے پر مشرف کی فیملی کو مراعات دینی چاہیں یا نہیں؟