زندگی کے اس کٹھن سفر میں ہم کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوجائیں، کتنی ہی دولت کیوں نہ کما لیں، کتنی ہی شہرت کیوں نہ حاصل کرلیں لیکن دل کے نہاں خانوں میں کہیں دور ہمارے اندر ایک چھوٹا سا، معصوم سا، پیارا سا بچہ چھپا رہتا ہے۔ وہ بچہ ہنسنا کھیلنا چاہتا ہے، زندگی کے ہر گزرتے پل کو محسوس کرنا چاہتا ہے، لیکن یہ بچہ تب تک زندہ رہتا ہے جب تک کہ ہمیں خود سے بڑے افراد کے موجود ہونے کا احساس رہے۔
یہ بڑے افراد ہمارے والدین، بہن بھائی اور اساتذہ ہوں تو اپنے وجود میں موجود اس نادیدہ بچے کی قلقاریاں ہم ہمیشہ محسوس کرسکتے ہیں اور زندگی کو گزار نہیں، بلکہ جی سکتے ہیں۔ ہرشخص کی زندگی میں تلخ اور خوشگوار تجربات ہوتے ہیں جن کی بنا پر اس کا زندگی سے متعلق اچھا یا برا تاثر قائم ہوتا ہے اور یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوتا کہ ہم سب افراد پر اپنے والدین اور بہن بھائیوں یعنی خاص طور پر خون کے رشتوں کا بہت اثر ہوتا ہے۔
بہت سی خصوصیات ہم وارثتی طور پر حاصل کرتے ہیں اور کئی رویے ہم معاشرے اور اپنے ماحول سے سیکھتے ہیں۔ ہمارا سب سے زیادہ تعلق براہ راست ہمارے اپنے والدین سے ہوتا ہے۔ مغرب کی بات الگ رہی لیکن ہمارے ہاں اگرچہ کہ سوشل میڈیا نے نئی نسل کو کافی حد تک مصروف کردیا ہے لیکن پھر بھی کئی گھرانوں میں گھر کے بزرگوں کی حیثیت اور مقام تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کی بات سنی، سمجھی اور مانی جاتی ہے۔
خود میرے بچپن میں میرے ابو اکثر مجھے دادا ابو اور دادی امی کی باتیں، ان کے زندگی سے متعلق تجربات اور پسند ناپسند سے آگاہ کرتے تھے اور یہی حال امی کا بھی تھا، ان کی بدولت ہم سب بچے اپنے ننھیال والوں سے واقف ہوچکے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک پیڑھی کی تربیت اگلی نسل تک میں سفر کرتی ہے، اسی لیے خاندان کے کئی قریبی افراد کا ہنسنا رونا، جھگڑنے کا انداز ایک دوسرے سے میل کھاتا ہے اور یہ سب لاشعوری طور پر ہوتا ہے، لیکن اگر ہم شعور کی بات کریں تو کچھ ایسے سوالات ہیں جو ہمیں اپنے والدین سے ضرور پوچھنے چاہیں۔
اگرچہ کہ آج کل سبھی بہت مصروف ہیں لیکن اگر ہم والدین کے قریب آنا چاہتے اور زندگی سے متعلق ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ سب چیزیں جاننا چاہئیں۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے والدین سے ان کے بچپن کے تجربات شیئر کرنا چاہئیں کہ ان کا بچپن کیسا تھا؟ وہ اسکول میں کیسے تھے، کیا شرارتی یا سیدھے سادے معصوم سے بچے ہوا کرتے تھے؟ وہ اپنے والدین میں سے کس کے زیادہ قریب تھے؟ والد کے یا والدہ کے؟ ان کے والدین نے ان کی تربیت کیسے کی، ان کو کس بات پر زیادہ ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور کب حوصلہ افزائی کی جاتی تھی؟
اگر آپ نوجوان ہیں تو آپ والدین سے ان کی شادی کے بارے میں بھی سوال کرسکتے ہیں کہ کیا ان کی شادی ارینج ہوئی یا لَو، اس طرح سے باتوں باتوں میں میڈیکل ہسٹری جاننے کی بھی کوشش کریں کہ کیا خاندان میں کسی کو شوگر، امراض قلب اور دیگر بیماریاں رہی ہیں۔ اس طرح آپ کو اپنی صحت کے بارے میں معلوم کرنے اور اس کا خیال کرنے کا احساس پیدا ہوگا۔
اپنے والدین سے یہ سوال کریں کہ کیا وہ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں؟ یا کسی پچھتاوے کا شکار ہیں؟ ان کے شوق کیا ہیں؟ جیسے میری والدہ کرویشیا بہت اچھا بناتی تھیں، گھر بھر میں ان کے ہاتھ کی بنائی ہوئی چیزیں ملتی تھیں، جن میں بیڈ شیٹس، گلاس کورز، صوفہ بیک کورز اور دیگر چیزیں ہوتی تھیں۔ وہ نت نئے ڈیزائن کے سویٹر بھی بنایا کرتی تھیں، انھیں کھانا پکانے کا بہت شوق تھا اور خاندان بھر میں ان کے بنائے کھانوں کی دھوم ہوا کرتی تھی۔
اپنے والدین سے ان کی زندگی میں آنے والے خوشگوار لمحوں کے بارے میں بھی پوچھیے۔ ان کے شوق، مشاغل، تعلیم، یہ سب چیزیں ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں۔ یاد رکھیے کہ والدین کے اندر بھی آپ کی طرح ایک ننھا سا بچہ موجود ہوتا ہے اور یہ بچہ اپنا آپ اپنے بچوں کے سامنے عیاں کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے والدین یہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کی زندگی کے بارے میں جانیں، ان کی غلطیوں سے سبق حاصل کریں اور دنیا میں کامیاب ہوں۔ تو آئیے آج کے اس نفسانفسی کے دور میں ان ہستیوں کےلیے بھی کچھ وقت نکالیں جنہوں نے اپنی پوری زندگیاں ہمارے لیے وقف کردیں۔