اسلام آباد: نگران حکومت نے سرکاری اداروں کی نجکاری کا عمل تیزکرنے کیلیے ہائی کورٹس کا اختیار سماعت ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
نگران حکومت نے سرکاری اداروں کی نجکاری کا عمل تیزکرنے کیلیے صدارتی آرڈیننس لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت نجکاری کے تمام کیسوں کی سماعت کیلیے خصوصی ٹریبونل قائم کیا جائے گا اور اس ضمن میں آئینی طور پر ہائیکورٹس کا دائرہ سماعت ختم کردیا جائے گا۔
خصوصی ٹریبونل کے فیصلوں کے خلاف 60 دنوں کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جاسکے گی۔نگران حکومت نے یہ اہم فیصلہ پی آئی اے کی نجکاری کا کیس لاہورہائیکورٹ میں سماعت کیلیے مقررکیے جانے کے ایک ماہ بعد اٹھایا ہے۔
لاہورہائیکورٹ کے جسٹس راحیل کامران شیخ نے اس معاملے میں آبزرویشن دی تھی کہ یہ معاملہ عوامی مفاد کا جو آئینی دائرہ اختیارسے متعلق ہے۔ اس کیس میں درخواست گزار نے مؤقف اختیارکیا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری نگران حکومت کے دائرہ اختیارمیں نہیں آتی۔ نگران حکومت کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔آئین کے آرٹیکل 199کے تحت ہائیکورٹس کے دائرہ اختیارکوختم نہیں کیا جاسکتا
اب نگران وفاقی کابینہ نے اسحوالے سے پرائیویٹائزیشن کمیشن آرڈیننس2023ء کے ڈرافٹ کی منظوری دیدی ہے، صدرکسی وقت بھی یہ آرڈیننس جاری کرسکتے ہیں۔لیکن ایسے معاملات میں یہ سوالات بھی سر اٹھاسکتے ہیں کہ نگران حکومت جس کے اختیارات محدود ہوتے ہیں آئینی طور پر ہائیکورٹس کے دائرہ اختیار کو محدود بھی کرسکتی ہے یا نہیں۔خاص طور پر ایسے معاملے میں جب کوئی پرائیویٹائزیشن ٹرانزیکشن کسی عالمی معاہدے کے ساتھ منسلک بھی نہیں۔
اس ضمن میں وفاقی وزیرنجکاری فواد حسن فواد سے رابطہ کرنے پر انھوں نے ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کو بتایا کہ اس آرڈیننس کا مقصد سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا ہے جومختلف فورمز پرکی جائے والی قانونی کارروائیوں سے گھبراتے ہیں اور ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرتے۔نئے قانون کے تحت نجکاری کے معاملات نمٹانے کیلیے صرف ایک ہی قانونی فورم ہوگااوراس کے خلاف اپیل صرف سپریم کورٹ میں دائر کی جاسکے گی۔
واضح رہے کہ پی آئی اے کی نجکاری فواد حسن فواد کی اوّلین ترجیح ہے اور نگران حکومت نے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاسوں کی صدارت کے اختیارات بھی وزیرخزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر سے لے کر فواد حسن فواد کے سپرد کردیے ہیں۔پی آئی اے کے معاملے میں حکومت نے فنانشل ایڈوائزرکی خدمات حاصل کرنے کیلیے بولی کے انٹرنیشنل پراسیس کی بھی پروا نہیں کی۔
نگران وفاقی کابنیہ نے پرائیویٹائزیشن آرڈیننس 2000 کے سیکشن 28 میں ترمیم کردی ہے جس کے تحت ہائیکورٹس پرائیویٹائزیشن ٹرانزیکشن سے متعلقہ سول اور فوجداری کیسوں کی سماعت کرسکتی تھیں ۔اب نئے ایڈہاک قانون کے تحت پرائیویٹائزیشن ایپلٹ ٹریبونل کے سوا کوئی عدالت ایسے کیسوں کی سماعت نہیں کرسکے گی۔اس آرڈیننس کی مدت 120دن ہوگی اور قومی اسمبلی اس میں مزید 120 دن کی توسیع کرسکے گی۔
نئے قانون کے حوالے سے آئینی ماہر سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد ہائیکورٹس سے کہا جائے گا کہ وہ ایسے کیسوں کو نہ سنیں کیونکہ ان کیلیے متبادل فورم موجود ہے۔
وفاقی وزیرنجکاری فوادحسن فواد کا کہنا ہے کہ پرائیویٹائزیشن ایپلٹ ٹریبونل تین ارکان پر مشتمل ہوگاجس کا سربراہ ایسا شخص ہوگا جو سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا جج رہ چکا ہو،باقی ارکان میں ایک جوڈیشل اورایک ٹیکنیکل ممبر ہوگا۔اس ٹریبونل کے فیصلے کیخلاف 60دنوں کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہوسکے گی۔
فواد حسن فواد کا کہنا ہے کہ ملک میں گزشتہ 30 برسوں سے نجکاری کے بعض کیس لٹکے ہوئے ہیں جن میں کہیں سرمایہ کار نے پوری ادائیگی تو کردی ہے لیکن اسے مالکانہ حقوق نہیں دیے جا رہے، بعض معاملات میں خریدار کو مالکانہ حقوق تو دیدیئے گئے ہیں لیکن وہ کمیشن کو مطلوبہ ادائیگیاں نہیں کررہے۔نئے ٹریبونل کے قیام سے ایسے معاملات جوعشروں سے زیرالتوا ہیں تیزی کے ساتھ نمٹائے جاسکیں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت 2000 سے موثرقوانین کے معاملے میں ایڈہاک قانون سازی کررہی ہے ،ان معاملات کے مؤثر باماضی ہونے کی بنیاد پر حکومت کو قانونی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
وفاقی وزیرنجکاری نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی سیکشن 230 کے تحت نگران حکومت کو دوطرفہ یا کثیرجہتی معاہدوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹائزیشن کمیشن آرڈیننس 2000ء کے تحت پہلے سے شروع کیے گئے معاملات پر فیصلوں کا اختیارحاصل ہے۔
ٹریبونل کو کسی بھی شخص کو سمن جاری کرنے، حاضری یقینی بنانے، مطلوب دستاویزات کے حصول، بیانات حلفی لینے اور دستیاب ڈاکومنٹس کی تحقیقات کیلیے کمیشن مقررکرنے کے اختیارات ہونگے۔جونہی نیا قانون آئیگا ہائیکورٹ میں زیرسماعت ایسے کیس ٹریبونل کو منتقل ہوجائیں گے۔