سائنسدانوں نے قدیم ترین بلیک ہول دریافت کیا ہے جو کائنات کے آغاز پر بنا تھا۔
برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے یہ دریافت جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کی۔
سائنسدانوں کا تخمینہ ہے کہ یہ بلیک ہول بگ بینگ کے 44 کروڑ سال بعد وجود میں آیا تھا۔
یہ بلیک ہول سورج کے مقابلے میں 10 لاکھ گنا بڑا ہے۔
محققین نے بتایا کہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ بلیک ہول بہت بڑا ہے جس کی ہمیں بالکل توقع نہیں تھی۔
اس تحقیق کے نتائج ایک پری پرنٹ ویب سائٹ پر شائع ہوئے ہیں۔
تحقیق کے مطابق اس بلیک ہول کو دیکھنا ممکن نہیں مگر اس کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔
عموماً بلیک ہول کے اردگرد گرد اور گیس کا ہالہ گھومتا رہتا ہے جس سے سائنسدانوں کو اس بلیک ہول کی موجودگی کا علم ہوا۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ قدیم ترین بلیک ہولز سے یہ اسرار جاننے میں مدد ملے گی کہ آخر کس طرح کہکشاؤں کے وسط میں بلیک ہولز کا حجم بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
یہ بلیک ہول GN-z11 نامی کہکشاں میں موجود ہے اور سائنسدانوں کے خیال میں یہ شاید بنا ہی اتنا بڑا تھا یا شروع میں ہی بہت تیزی سے پھیلا۔
سائنسدانوں نے بتایا کہ یہ تو پہلے ہی ایک معمہ تھا کہ آخر بلیک ہول بنتے کیسے ہیں اور اب اس کا اسرار مزید بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بلیک ہول نوعمر کائنات میں حیرت انگیز تیز رفتاری سے پھیلے تھے جس کی ہمیں توقع نہیں تھی۔
بلیک ہول ہے کیا؟
خیال رہے کہ کائنات کے اسراروں میں سے ایک اسرار بلیک ہول بھی ہے جسے جاننے اور سمجھنے کے لیے سائنسدان تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔
بلیک ہول کائنات کا وہ اسرار ہے جسے کئی نام دیے گئے ہیں، کبھی اسے ایک کائنات سے دوسری کائنات میں جانے کا راستہ کہا جاتا ہے تو کبھی موت کا گڑھا۔
کوئی بھی ستارہ بلیک ہول اس وقت بنتا ہے جب اس کے تمام مادے کو چھوٹی جگہ میں قید کردیا جائے۔ اگر ہم اپنے سورج کو ایک ٹینس بال جتنی جگہ میں مقید کردیں تو یہ بلیک ہول میں تبدیل ہوجائے گا۔