دنیا کی اکلوتی سپرپاور، امریکا میں کئی پاکستانی ڈاکٹر طب وصحت کے بے اہم شعبے میں سرگرم عمل ہیں۔ وہ اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر سرزمین امریکا میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چکے۔ اہم کارنامے انجام دینے والے اہل وطن میں ڈاکٹر سعدیہ خان بھی شامل ہیں جن کا شمار ممتاز امریکی ماہرین ِامراض قلب میں ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سعدیہ خان پاکستانی والدین کی دختر ہیں۔ امریکی شہر، شگاگو میں جنم ہوا۔2009ء میں شہر کی مشہور درس گاہ، نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی۔ بعد ازاں امراض قلب میں تخصص کیا۔ آج کل نارتھ ویسٹرن میموریل ہسپتال سے بطور کارڈیولوجسٹ منسلک ہیں۔ نیز بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں پڑھاتی بھی ہیں۔
اس سال ڈاکٹر سعدیہ خان نے ایک نئی قسم کی دل کی بیماری دریافت کرنے میں اہم حصّہ لیا۔اس کے علاوہ انھوں نے ایک کیلکولیٹر یا ایسا پیمائشی آلہ بھی ایجاد کیا جس کی مدد سے انسان جان سکتا ہے کہ کیا اس میں ایسی جسمانی تبدیلیاں جنم لے چکیں جن کے ذریعے وہ اس نئی بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے؟
یہ ڈاکٹر سعدیہ خان ہی ہیں جنھوں نے پہلے پہل اپنے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے دریافت کیا کہ وہ بالعموم متضاد طبی ہدایات پہ عمل کرتے ہیں۔ ان متناقص ہدایات کی وجہ سے بعض اوقات انھیں دل کا جو مرض لاحق تھا، وہ سنگین ہو جاتا ۔متضاد طبی ہدایات کے حامل اکثر مریض ایسے تھے جو عموما دل کی بیماری کے ساتھ ساتھ گردوں اور ذیابیطس قسم دوم یا موٹاپے میں بھی مبتلا پائے گئے۔
ہوتا یہ ہے کہ یہ مریض دل، گردے اور شوگر کے تین مختلف ڈاکٹروں سے طبی معائنہ کراتے ہیں۔ ہر ڈاکٹر اپنی بیماری کی نوعیت جان کر مریض کو مخصوص ہدایات دیتا ہے۔
یوں مریض کو طبی ہدایات کے تین مختلف سیٹ پہ عمل کرنا پڑتا ہے۔ مگر بعض ہدایات ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں، اس بنا پہ دل، گردے یا نظام استحالہ (metabolic system)میں سے کوئی ایک متاثر ہوجاتا ہے اور اس سے وابستہ مرض کی شدت بڑھ جاتی ہے۔
ڈاکٹر سعدیہ خان نے فیصلہ کیا کہ جو مردوزن بیک وقت دل، گردے اور شوگر یا موٹاپے کے طبی خلل میں مبتلا ہیں، ان کو طبی ہدایات کا ایک ہی سیٹ ملنا چاہیے تاکہ ان کی صحت بہتر ہو سکے۔
یہ ایک نئی قسم کی سوچ تھی جسے امریکن ماہرین امراض قلب نے بہت سراہا۔ چناں چہ چند ماہ قبل ڈاکٹر سعدیہ خان کی تحقیق و تجربات کی بنیاد پہ امریکا میں ماہرین امراض قلب کی سب سے بڑی تنظیم، امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نے ایک نئی قسم کی بیماری کا اعلان کر دیا جسے ’’سی کے ایم سائنڈروم‘‘(CKM syndrome) کا نام دیا گیا۔
ایک مریض تین بیماریاں
’’سی کے ایم سائنڈروم‘‘کا شکار مریض بیک وقت دل، گردوں اور نظام استحالہ کی کسی نہ کسی بیماری(مثلاً ذیابیطس قسم دوم یا موٹاپے) میں مبتلا ہوتے ہیں۔یوں ان پہ تین بیماریاں ایک ساتھ حملہ آور ہوجاتی ہیں اور انھیں دوران علاج زیادہ توجہ و احتیاط درکار ہوتی ہے۔
اسی ضرورت کو ڈاکٹر سعدیہ خان نے محسوس کیا اور اس کا پرچار بھی کرنے لگیں۔ یوں وہ لاکھوں مردوزن کے لیے مسیحا بن گئیں جو ’’سی کے ایم سائنڈروم‘‘ کا نشانہ بنے ہوئے ہیں مگر ڈاکٹروں کی متناقص طبی ہدایات کی وجہ سے صحت یاب نہیں ہو پاتے۔ پاکستان میں بھی اس طبی خلل کے لاکھوں مریض موجود ہیں۔
امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نے پھر ایک کمیٹی بنا دی تاکہ وہ ’’سی کے ایم سائنڈروم‘‘ کے مریضوں کے لیے مناسب و مفید طبی ہدایات تشکیل دے سکے۔اس کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر سعدیہ خان بنائی گئیں۔ کمیٹی نے پھر طبی ہدایات کا سیٹ تیار کیا جو نومبر2023ء سے امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ پہ درج ذیل پتے پر دستیاب ہے:
خدانخواستہ جو اہل پاکستان ’’سی کے ایم سائنڈروم‘‘میں مبتلا ہیں، وہ بھی ان طبی ہدایات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اس طبی خلل کے پانچ مراحل یا سٹیجز ہیں۔ پہلے مرحلے میںموت کا خدشہ کم ہوتا ہے۔لیکن جوں جوں مراحل میں اضافہ ہو، موت ہارٹ اٹیک یا اسٹروک کی صورت مریض کے سر پہ منڈلانے لگتی ہے۔
جدید طبی تحقیق
یہ یاد رہے کہ جدید طبی تحقیق کی رو سے انسان اگرایک ساتھ گردوں اور نظام استحالہ کے مسائل کا شکار ہو جائے تو اسے دل کی بیماریاں چمٹ جانے کا خطرہ بھی جنم لیتا ہے۔
اس سے ثابت ہے کہ کوئی ایک انسانی عضو یا جسمانی نظام خراب ہو جائے تو وہ دیگر اعضا یا نظاموں پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ خراب عضو کی وجہ سے دیگر اعضا بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ متاثرہ عضو یا جسمانی نظام کا علاج جلد از جلد شروع کیا جائے تاکہ وہ دیگر اعضا کو خراب نہ کر سکے۔
ڈاکٹر سعدیہ خان نے ایک نیا رسک کیلکولیٹر ایجاد کرنے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ پیمائش نما بتاتا ہے کہ تیس سال کی عمر کے بعد کیا انسان ’’سی کے ایم سائنڈروم‘‘کا نشانہ بن سکتا ہے۔ اس کیلکولیٹر کو’’پریوینٹ‘‘ (PREVENT)کا نام دیا جا چکا۔یہ رسک کیلکولیٹر دیکھتا ہے کہ انسان کتنا موٹا ہے۔
اس کے خون میں شکر کی کتنی مقدار ہے، بلڈ پریشر یا خون کا دباؤ کتنا رہتا ہے، گردے جسم سے فضلہ کس رفتار سے نکالتے ہیں اور جسمانی سوزش کتنی ہوتی ہے۔اگر یہ تمام عناصر منفی صورت حال سامنے لائیں تو یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان قبل ازوقت مر جائے گا۔
ڈاکٹر سعدیہ سبھی لوگوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ وہ خود کو موٹا نہ ہونے دیں۔ وجہ یہ ہے کہ جسم میں چربی زیادہ ہو جائے تو وہ کیمیائی مادے پیدا کر کے انسان کو سوزش کا شکار بناتی ہے۔یہ سوزش خون کی نالیوں، دل ، گردوں اور دیگر اعضا کو نقصان پہنچاتی ہے۔
اسی سوزش کے باعث ہمارے خلیوں کا رابطہ انسولین سے ٹوٹنے لگتا ہے۔یہی ہارمون خون میں موجود شکر خلیوں میں داخل کرتا ہے۔ خلیوں اور انسولین کا رابطہ منقطع ہونے سے خون میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور انسان جلد شوگر کا مریض بن جاتا ہے۔
کیفین سے ذرا بچ کر!
یہ تو تھا ڈاکٹر سعدیہ خان کے کارناموں کا تذکرہ ، اب امریکی سرزمین ہی پر جنم لینے والے ایک افسوس ناک واقعے کی بابت جانیے جس میں اہل پاکستان کے لیے بھی سبق موجود ہے۔پچھلے سال ماہ ستمبر میں ایک اکیس سالہ امریکی لڑکی، سارہ کٹز نے مقامی کمپنی کا تیار کردہ مشروب، چارجڈ لیمونیڈ(Charged Lemonade) منگوایا۔
بیچاری لڑکی کو علم نہ تھا کہ توانائی بڑھانے والے اس مشروب میں 390 ملی گرام کیفین بھی ڈالی جاتی ہے۔ سارہ نے جیسے ہی مشروب پیا ، اس کی حالت خراب ہو گئی۔ چند گھنٹوں بعد وہ دل کی دھڑکن رک جانے کے باعث چل بسی۔ یوں کیفین نے زندگی سے بھرپور ایک دوشیزہ کی جان لے لی۔
سارہ دراصل ایک پیدائشی طبی خلل ’’ایل کیو ٹی ایس‘‘ (Long QT syndrome) میں مبتلا تھی۔اس خلل کا شکار انسانوں میں اکثراوقات ایسے اعمال سے دل چلتے چلتے رک جاتا ہے جو عام انسان پہ کوئی منفی اثر نہیں ڈالتے۔ایک ایسا ہی عمل ایسا مشروب پینا ہے جس میں کیفین زیادہ مقدار میں موجود ہو۔
سارہ تعلیم یافتہ لڑکی تھی۔ وہ اپنے پیدائشی خلل سے آگاہ تھی۔ بدقسمتی سے یہ نہ جان سکی کہ چارجڈ لیمونیڈ میں کثیر کیفین موجود ہے۔ یہی ناواقفیت اس کی موت کا سبب بن گئی۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر دو ہزار مروزن میں ایک پاکستانی ’’ایل کیو ٹی ایس‘‘ میں مبتلا ہے۔یہ لوگ خصوصاً کھانے پینے میں بداحتیاطی کریں تو دل کی دھڑکن بند ہونے سے چل بستے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں اس طبی خلل سے آگاہی کم ہے۔
لہٰذا عزیزواقارب کو علم ہی نہیں ہو پاتا کہ ایک بھلا چنگا انسان کیونکر منٹوں میں چٹ پٹ ہو گیا۔ دور جدید میں ایسی اچانک اموات اکثر ہونے لگی ہیں۔ اس عجوبے میں ’’ایل کیو ٹی ایس‘‘ کا بھی کردار ہے۔
کیفین ایک نامیاتی مرکب ہے جو کئی پودوں کے پھلوں، بیجوں، پتوں اور مغز میں پایا جاتا ہے۔ ان پودوں میں کافی اور چائے کے پودے سب سے زیادہ مشہور ہیں۔
کیفین انسان میں نیند لانے والے ہارمونوں اور کیمیائی مادوں کا اخراج روک کر ہمارے مرکزی اعصابی نظام کو متحرک کر دیتا ہے۔ اس کو لینے سے انسان میں دو ہارمونوں، کورٹیسول(cortisol) اور (adrenaline) کا اخراج بڑھ جاتا ہے۔ یہ دونوں ہارمون انسان کو ذہنی و جسمانی طور پہ چست وچالاک کرتے ہیں ۔
’’ایل کیو ٹی ایس‘‘ کے حامل مردوزن کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ان کے جسم میں تین چار سو ملی گرام کیفین اچانک داخل ہو جائے تو درج بالا ہارمونوں کی مقدار بڑھنے سے دل کی دھڑکن رک جانے کا خطرہ جنم لیتا ہے۔ اور یہ دھڑکن بروقت بحال نہ ہو تو انسان اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے۔
سارہ کے ساتھ یہی ماجرا پیش آیا۔کیفین کی زیادتی نے اس کے جسم میں دونوں ہارمونوں کی مقدار بڑھا کر دل کو جامد کر دیا۔ بروقت طبّی امداد نہ ملنے سے وہ موت کے منہ میں پہنچ گئی۔
اہل پاکستان کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا وہ ’’ایل کیو ٹی ایس‘‘ میں مبتلا ہیں؟وجہ یہ ہے کہ موسم سرما آ چکا جس میں کافی اور چائے کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔
لہٰذا کوئی خدانخواستہ ’’ایل کیو ٹی ایس‘‘ کا شکار ہو اور وہ یہ امر نہ جانتا ہو اور دن میں کسی وجہ سے چار پانچ سو ملی گرام کیفین لے ڈالے تو دل کی حرکت رک جانے سے اس کی قیمتی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
یہ یاد رہے کہ بیشتر غذائی مادوں کی طرح کیفین بھی انسان کی صحت پہ مثبت و منفی، دونوں قسم کے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اسے درست طریقے سے برتنے کا گر یہ ہے کہ کیفین اعتدال سے استعمال کی جائے۔ کسی بھی غذا کا حد سے زیادہ استعمال اسے صحت کے لیے نقصان دہ بنا دیتا ہے، چاہے وہ کتنی ہی غذائیت رکھتی ہو۔