اسلام آباد: ہائی کورٹ نے ایم پی او سے متعلق ڈی سی کے اختیار کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ مستقبل میں نقض امن کے شک میں گرفتار کرنا خلافِ آئین ہے۔
شہریار آفریدی اور دیگر کی ایم پی او کے تحت نظربندی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کا تحریری فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جاری کردیا، جس میں عدالت نے ایم پی او آرڈر جاری کرنے کا ڈی سی اسلام آباد کا اختیار خلاف قانون اور اختیارات سے تجاوز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل میں نقض امن کے شک میں گرفتار کرنا خلاف آئین ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے 89 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کردیا، جس میں عدالت نے کہا کہ وفاقی حکومت آئین کے تحت اسلام آباد پر لاگو ہونے والے وفاقی و صوبائی قوانین کے حوالے سے انفرادی اختیارات رکھتی ہے۔ اسلام آباد کے لیے وفاقی حکومت ہی وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کا کردار ادا کرتی ہے۔ ایک شخص کو محض اس شک پر گرفتار کرنا کہ وہ مستقبل میں نقض امن کا خطرہ پیدا کرے گا، آئین کے بر خلاف ہے۔
عدالت نے ایم پی او آرڈر جاری کرنے کا ڈی سی اسلام آباد کا اختیار خلاف قانون اور اختیارات سے تجاوز قرار دینے کے ساتھ ساتھ 1992ء کا چیف کمشنر کا ڈی سی اسلام آباد کو اختیارات تفویض کرنے کا نوٹیفکیشن بھی خلاف قانون قرار دیتے ہوئے فیصلہ دیا کہ وفاقی حکومت صوبائی اختیارات کے استعمال سے متعلق رولز 3 ماہ میں تشکیل دے۔ وفاقی حکومت ہی اسلام آباد کی حد تک صوبائی حکومت بھی ہے ، چیف کمشنر نہیں ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ ایم پی او کا آرٹیکل تھری (2) آئین کے آرٹیکل 10(4)کے متصادم ہے ۔ کسی بھی شخص کو صرف اس بنیاد پر گرفتار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ یہ عمل کرسکتا ہے ۔ گرفتاری کا اطلاق تب ہوتا ہے جب کوئی عمل کررہا ہو یا کرچکا ہو۔ کسی کی حراست کے آرڈرز جاری کرنے کے لیے ٹھوس شواہد کا موجود ہونا بھی ضروری ہے۔ حفاظتی حراست کے قوانین کے تحت اختیارات سیاسی نتائج خاص طور پر الیکشن سے پہلے استعمال کیے گئے۔ آمرانہ حکومتوں کے بعد جمہوری حکومتیں بھی ایم پی او اختیارات کا غلط استعمال کرنے سے پیچھے نہیں رہیں ۔
89 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ایم پی او کے تحت حراست غیر قانونی ہے کیونکہ جُرم سرزد ہونے پر قانون کو حرکت میں آنا ہے ۔ نہ تو قبل از وقت حراست کا قانون بنایا جا سکتا ہے نہ حفاظتی حراست کا یہ اختیار اس ایکٹ کے ہونے سے پہلے استعمال ہو سکتا ہے ۔ چیف کمشنر اسلام آباد کو نہیں بلکہ وفاقی حکومت کو اسلام آباد کی حد تک وفاق اور صوبے کے قوانین لاگو کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ مصطفیٰ امپیکس فیصلے کے مطابق عدالت نے قرار دیا کہ ان خصوصی اختیارات کے استعمال کے لیے کابینہ کی منظوری ضروری ہوگی۔ چیف کمشنر اسلام آباد کا صوبائی اختیارات سے متعلق نوٹیفکیشن آئین سے متصادم، کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے صوبائی اختیارات کا 1992ء کا نوٹیفکیشن بھی خلاف قانون اور اختیارات کے بغیر ہے۔ وفاقی حکومت صوبائی اختیارات کے استعمال سے متعلق رولز 3 ماہ میں تشکیل دے۔
ڈی سی اسلام آباد کے جاری کردہ ایم پی او آرڈرز کی تفصیلات
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی تفصیلات سامنے آ گئیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ ڈی سی اسلام آباد عرفان نواز میمن نے بطور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مئی سے ستمبر تک کتنے ایم پی او آرڈر جاری کیے۔
عدالت نے کہا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے مئی سے ستمبر 2023 تک 5 ماہ میں 67 ایم پی او آرڈر جاری کیے ، جن میں سے اکثریت پی ٹی آئی کی لیڈرشپ یا ان کے ممبران کے خلاف تھے ۔ پی ٹی آئی لیڈرشپ کا الزام تھا کہ ان کو سیاسی وابستگی کی بنیاد پر حکومت ٹارگٹ کر رہی ہے ۔ جتنے بھی ایم پی او آرڈر اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج ہوئے وہ یا کالعدم ہوئے یا ڈی سی نے واپس لیے یا غیر مؤثر ہو گئے ۔
ایک بھی ایم پی او آرڈر نہیں تھا کر قانونی پراسس کے بعد جاری کیا گیا ہو ۔ مئی سے حراست میں موجود شہریار آفریدی کے خلاف ستمبر میں دوسرا ایم پی او جاری ہوا ۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو بار بار موقع دیا گیا لیکن وہ اپنے آرڈر کی سپورٹ میں کوئی میٹریل عدالت کے سامنے پیش نہیں کر سکے ۔ عدالت کے سامنے موجود ریکارڈ کے مطابق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے آئین و قانون کے ساتھ فراڈ کیا ۔
عدالت نے قرار دیا کہ جس طرح ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اختیار استعمال کیا وہ بدنیتی کے زمرے میں بھی آتا ہے ۔ عدالت مزید کوئی آبزرویشن نہیں دے رہی کیونکہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی زیر التوا ہے ۔ فئیر ٹرائل کا تقاضا یہی ہے عدالت ڈی سی کے خلاف ٹرائل مکمل ہونے سے پہلے کوئی آبزرویشن نہ دے ۔