ذہنی سکون کیلیے بابر اعظم کو کرکٹ سے وقفہ لینے کا مشورہ دیے جانے لگا۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk. کو خصوصی انٹرویو میں مشتاق احمد نے کہا کہ بابر اعظم دنیا کے بڑے کرکٹرز میں سے ایک اور ہمارے ہیرو ہیں، ایشیا کپ میں ٹیم اچھا پرفارم نہیں کرسکی، ورلڈکپ بھی ایسا ہی گزرا، اس دوران افواہیں پھیلیں،پھر ان سے کپتانی بھی چھن گئی، ہمارے کلچر میں اس طرح کی باتوں کا احساس نہیں کیا جاتا، اگر میں ہوتا تو بابر سے کہتا کہ آسٹریلیا کیخلاف 3ٹیسٹ نہ کھیلو، آنے والی سیریز کی تیاری کرو، انھوں نے آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز اور پھر نیوزی لینڈ میں اچھا پرفارم نہ کیا تو ایک دم بہت نیچے چلے جائیں گے۔
نے کہا کہ ہم چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کیلیے بڑی چیز ہار جاتے ہیں،بابر نے 4سال کپتانی کی، قیادت اور کارکردگی کا دباؤ برداشت کیا،اس سے ذہنی تھکاوٹ بھی ہوجاتی ہے،بہتر یہی ہوتا ہے کہ تفریح کریں اور فیملی کے ساتھ وقت گزاریں، دنیا میں یہی کیا جاتا ہے، ویراٹ کوہلی کو مسائل ہوئے تو انھوں نے کھیل سے وقفہ لیا، واپس آئے تب سے تسلسل کے ساتھ پرفارم کررہے ہیں۔
بابر اعظم شاید حالیہ سیریز میں اس لیے بھی شریک ہوئے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ کپتانی گئی تو ٹیم بھی چھوڑ دی،اس طرح کے فیصلے مینجمنٹ کو کرنا چاہیں، بابر سے بات کرتے کہ آپ کے 6ماہ بہت دباؤ میں گزرے اب آرام کریں،واپسی پر اچھا محسوس کریں گے۔
شاہین وکٹ لینے کیلیے زور لگاتے ہیں اسی لیے اسپیڈ گر رہی ہے
پاکستانی پیسرز کی اسپیڈ کم ہونے کے سوال پر مشتاق احمد نے کہا کہ چائے کے وقفے تک شاہین شاہ آفریدی اور عامر جمال 15،15اوورز کرواچکے ہوتے ہیں،کپتان کو رنز روکنے اور وکٹیں اڑانے کی فکر ہو تو پریشر میں اپنے اہم بولر کو ہی بولنگ کیلیے لائے گا۔
آسٹریلیا نے ایک اینڈ سے ناتھن لائن کا استعمال کرتے ہوئے اپنے بولرز کو تھکنے نہیں دیا،شاہین شاہ آفریدی تینوں فارمیٹ اور لیگز بھی کھیل رہے ہیں ، ظاہر ہے وہ انسان ہیں تھکاوٹ کا شکار تو ہوں گے،کام کے بوجھ کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیٹیگریز بنانا چاہئیں، خرم شہزاد نے پہلے ٹیسٹ میں اچھی بولنگ کی مگر ان فٹ ہوگئے۔
میر حمزہ طویل عرصہ سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہے ہیں،ان کو اندازہ تھا کہ کب زور لگانا ہے،اس لیے اسپیڈ میں ضرورت کے مطابق کمی بیشی کرتے رہے،شاہین شاہ آفریدی وکٹ لینے کیلیے زور لگاتے ہیں،اسی لیے اسپیڈ گر رہی ہے۔
شان نے آسٹریلیا میں اچھی کپتانی کی،باڈی لینگوئیج وبیٹنگ بھی بہتر نظر آئی
مشتاق احمد نے کہا کہ شان مسعود نے آسٹریلیا میں اچھی کپتانی کی،ان کی باڈی لینگوئج بھی بہتر نظر آئی،بیٹنگ میں بھی بہتری آئی، وہ بڑے مثبت نظر آئے،میں ملتان سلطانز میں ان کو بتاتا رہا تھا کہ اچھی فٹنس کی وجہ سے بعض اوقات مثبت اپروچ میں کچھ زیادہ ہی ہوجاتا ہے، یہ آپ کی قوت اور یہی کمزوری بھی ہے۔
کبھی کبھار زیادہ مثبت ہونے سے کھیل پر کنٹرول کم پڑجاتا ہے،ان سب چیزوں کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ بولرز کو ہدف بنانا یا تحمل سے کھیلنا ہے،شان مسعود میں قائدانہ صلاحیتیں ہیں،وہ 1،2 سیریز جیت جائیں تو ان میں تنا اعتماد ہے کہ ڈریسنگ روم کو کنٹرول کرسکیں گے۔
ٹیم کیلیے کیٹیگریز بناکر 2530بولرز تیار کرنے چاہئیں
پاکستان کو معیاری اسپنرز دستیاب نہ ہونے کے سوال پر مشتاق احمد نے کہا کہ اس کیلیے 2سال قبل حکمت عملی بنانے کی ضرورت تھی تاکہ آپ کے پاس ’’اے‘‘، ’’بی‘‘اور ’’سی‘‘ پلان ہوتے،اگر پہلا اور دوسرا نہیں چلتا تو تیسرا چل ہی جائے گا،بینچ اسٹرینتھ اور ہر پوزیشن کیلیے متبادل کھلاڑی تیار کرنا پڑتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ اور چیف سلیکٹر وہاب ریاض نئے آئے ہیں،ان کیلیے مشکل ہے، سسٹم بنانے کیلیے پالیسیز میں تسلسل کی ضرورت ہے،طے کرنا ہوتا ہے کہ کون وائٹ اور کون ریڈ بال کیلیے موزوں اسپنر ہے،جب تک کیٹیگریز بناکر 25، 30بولرز تیار نہیں کریں گے تو ٹیم کی ضرورت کس طرح پوری ہوگی، اس طرح کے پلان تیار کرنے کیلیے سب سے پہلے ہار کا خوف دل سے نکالنا پڑتا ہے،اگر صرف جیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے چانس نہیں لیتے تو مسائل ہوں گے۔
میلبورن میں ٹیم نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا،مواقع گنوانے سے شکست ہوئی
مشتاق احمد نے کہا کہ پاکستانی کرکٹرز نے میلبورن میں اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا مگر اہم موقع کا فائدہ نہ اٹھا پانے کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا،آسٹریلیا میں اہم ہوتا ہے کہ کوئی شراکت قائم ہوتو لمبی چلے۔
شان مسعود،سلمان علی آغا اور بابر اعظم بھی سیٹ ہونے کے بعد آؤٹ ہوئے، آسٹریلیا جیسی بڑی ٹیم کو مواقع دے دیں تو وہ پھر میچ میں آپ کیلیے کچھ نہیں رہنے دیتے،مہمان ٹیم نے انتہائی اہم موقع پر کیچز ڈراپ کیے، جہاں ضرورت تھی بولرز وکٹیں نہیں لے سکے، دونوں ٹیسٹ میں اسپنرز بھی نہیں کھلائے۔
میزبان نے ناتھن لائن کو ایک اینڈ سے بولنگ کی ذمہ داری دیتے ہوئے پیسرز کو چھوٹے اسپیلز میں وکٹیں اڑانے اور دباؤ بڑھانے کا ٹاسک دیا، ہیزل ووڈ جاتے تو مچل اسٹارک آ جاتے، پھر پیٹ کمنز ایکشن میں آتے،اس حکمت عملی کی وجہ سے بیٹرز کو سیٹ ہونے میں مشکل ہوتی، پاکستان کو ایک اسپنر بھی کھلانا چاہیے تھا۔
یاسر شاہ کودوڑ سے باہر نہیں کرسکتے،شاداب کو فرسٹ کلاس میچز کھیلنے چاہئیں
مشتاق احمد نے کہا کہ اسپن کے شعبے میں عثمان قادر، اسامہ میر، شاداب خان اور زاہد محمود موجود ہیں، یاسر شاہ کو بھی دوڑ سے باہر نہیں کرسکتے،عماد وسیم اچھے بولر تھے مگر ریٹائرمنٹ لے لی،ظفر گوہر اچھا بولر تھے نجانے کہاں گئے، ثقلین مشتاق نے ساجد خان پر بڑا کام کیا، محمد نواز بھی موجود ہیں، بولرز کا گروپ ہے مگر 4روزہ کرکٹ بھی کھیلنا ضروری ہے۔
ون ڈے کرکٹ کیلیے تیاری کیلیے شاداب خان، اسامہ میر اور زاہد محمود کو بھی طویل فارمیٹ کے میچ کھیلنا چاہئیں،ان کو اپنے ایکشن، ردھم اور بولنگ پلان کا علم ہونا چاہیے، شاداب خان نے پاکستان کو میچز جتوائے ہیں ،اگر انھوں نے ہر سیزن میں 4یا 5فرسٹ کلاس میچز کھیلے ہوتے تو خود بھی اپنی بولنگ میں بہتری لاتے، گگلی اور ٹرن میں جو کمی نظر آرہی ہے اس کو پوری کرنے میں کامیابی ملتی۔
ایشیا کپ اور ورلڈکپ میں اسپن بولنگ کوچ نہ ہونا حیران کن تھا
مشتاق احمد نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ ایشیا کپ اور ورلڈکپ جیسے میگا ایونٹس میں قومی ٹیم کے ساتھ اسپن بولنگ کوچ ہی موجود نہیں تھا،تھنک ٹینک کے ذہن میں یہ بات ہی نہیں تھی،میں اپنی بات نہیں کررہا، ثقلین مشتاق یا سعید اجمل کی خدمات لے لیتے،درمیانی اوورز میں وکٹوں کی ضرورت ہوتی ہے، کوچ حکمت عملی بناتا ہے، کوئی اسپنر اچھا اسپیل نہیں کروا پاتا تواسے کس طرح کم بیک کیلیے تیار کریں؟ یہ کوچ کا ہی کام ہے،دیکھنا ہوتا ہے کہ کون کس جگہ پر ضروری ہوگا مگر ہمارے ہاں پسند ناپسند پر فیصلے ہوجاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مجھے جب بھی موقع ملے انڈر19اسپنرز کے ایکشن میں تسلسل لانے کیلیے کام کرتا ہوں، جب ان کو اپنی لائن و لینتھ پر اعتماد ہوگا تو رنز روکنے سے زیادہ وکٹیں اڑانے کا سوچیں گے، ابھی پی سی بی کے ساتھ میری بات چیت چل رہی ہے،بڑے لیول کی کرکٹ میں گلیمر ہے مگر جونیئر سطح پر کام کرتے ہوئے ہم زیادہ فرق ڈال سکتے ہیں،ایسا کرنا بہت ضروری بھی ہے۔
آسٹریلوی پچز کا انداز تبدیل ہوگیا
سڈنی میں اسپنرز کیلیے مدد ہونے کے سوال پر مشتاق احمد نے کہا کہ آسٹریلیا میں پچز کا انداز تبدیل ہوا ہے،پرتھ میں ناتھن لائن نے 5پلیئرز کو آؤٹ کردیا تھا،میلبورن ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں بھی انھوں نے پاکستانی بیٹرز کو پریشان کیا،پچ پر باؤنس کی موجودگی میں بھی ایک اچھا اسپنر مناسب فیلڈ سیٹنگ سے کامیاب ہوسکتا ہے،اہم بات یہ ہے کہ آپ پچ کو کیسا سمجھتے ہیں۔
1995 کے سڈنی ٹیسٹ جیسے یادگار لمحات ہمیشہ یاد رہتے ہیں
پاکستان ٹیم کی 1995میں سڈنی میں کامیابی کے بارے میں مشتاق احمد نے کہا کہ کرکٹرز کو اس طرح کے یادگار لمحات ہمیشہ یاد رہتے ہیں، آسٹریلیا میں جیتنے کیلیے وسائل تو ہونا ہی چاہئیں،اپنی صلاحیتوں پر یقین کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم جیت سکتے ہیں،وسیم اکرم کپتان تھے،ہم بات کرتے تھے کہ کینگروز جارحانہ بیٹنگ کرتے ہیں،ان کی 20وکٹیں لینا آسان نہیں ہوتا، مہمان بیٹرز کیلیے بھی کنڈیشنز آسان نہیں ہوتیں،ہم نے بیٹھ کر بات کی کہ جیت سکتے ہیں، سڈنی میں گیند ٹرن ہوتی ہے۔
میری فارم بھی اچھی تھی،سڈنی سے قبل ہوبارٹ میں بھی میں نے 9وکٹیں حاصل کیں مگر جیت نہیں سکے تھے، ہمارے پاس وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے بولرز تھے، اعجاز احمد اور انضمام الحق نے بھی عمدہ بیٹنگ کی اور ہم فتحیاب ہوگئے، اس جیت کے بعد پاکستان ٹیم کی بڑی عزت افزائی ہوئی۔