کراچی: ستمبر میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر 2.20 ارب ڈالر رہیں، جو چھہ ماہ کی بلند ترین سطح ہے، جس کی بنیادی وجہ غیرقانونی ایکسچینج مارکیٹوں اور حوالہ ہنڈی کے خلاف کیے جانے والے آپریشنز ہیں۔
کریک ڈاؤن نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ترسیلات زر قانونی ذرائع سے بھیجنے پر مجبور کردیا ہے، جس کے نتیجے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی بہتری آنے کی توقعات پیدا ہوگئی ہیں تاہم ترسیلات زر مارکیٹ کی توقعات کے مقابلے میں کم رہیں۔
ماہرین نے ستمبر میں ترسیلات زر 2.30 ارب ڈالر سے 2.50 ارب ڈالر رہنے کی توقع ظاہر کی تھی، اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ترسیلات زر میں اگست کے مقابلے میں ستمبر میں 5 فیصد اضافہ ہوا، جو 2.09 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2.20 ارب ڈالر ہوگئی ہیں، برطانیہ سے ترسیلات زر311 ملین ڈالر، امریکہ سے 263 ملین ڈالر، جبکہ دیگر ممالک سے 425 ملین ڈالر رہیں۔
پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ریسرچ ہیڈ سمیع اللہ طارق نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کریک ڈاؤن کے نتیجے میں غیر قانونی مارکیٹیں ختم ہوگئی ہیں، جس کے نتیجے میں بیرون ملک مقیم پاکستانی قانونی ذرائع سے رقوم بھیج رہے ہیں، جس کی وجہ سے ترسیلات زر میں اضافہ ہورہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ترسیلات زر بھیجنے میں 10 سے 30 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، تاہم انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ترقی یافتہ ممالک میں شرح سود میں اضافوں کی وجہ سے ترسیلات زر توقع سے کم رہی ہے، معاشی بحران کی وجہ سے برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے ترسیلات زر میں معمولی کمی ہوئی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ان ممالک سے بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک کو ہونے والی ترسیلات زر میں بھی کمی دیکھی گئی ہے، آپٹیمس کیپیٹل منیجمنٹ کے تجزیہ کار معاذ اعظم نے کہا کہ اگلے ماہ سے ترسیلات زر میں مزید بہتری آئے گی کیوں کہ غیرقانونی ایکسچینج مارکیٹیں 5 ستمبر تک چلتی رہی ہیں، اور کریٹ ڈاؤن کا آغاز 6 اور 7 ستمبر سے کیا گیا تھا، اس لیے ستمبر میں کریک ڈاؤن کے بھرپور نتائج سامنے نہیں آئے۔
انھوں نے پیشگوئی کی کہ اگر کریک ڈاؤن جاری رہا اور غیرقانونی مارکیٹوں کو دوبارہ منظم نہ ہونے دیا گیا تو اکتوبر میں ترسیلات زر 2.40 سے 2.50 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔