ڈاکٹر ایم کے ریحان
فلسطین پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے ۔لیکن مقام حیرت ہے کہ انسانیت کا درد رکھنے والے غیر مسلم اس حقیقت بخوبی اگاہ ہیں،کہ فلسطین غزوہ میں موت کا رقص،قیامت صغریٰ کے مناظرکسی سے پوشیدہ نہیں۔ مگر پھر بھی اسلامی دنیا خاموش ہے۔بیت المقدس، قبلہ اول دنیا بھر کے مسلمانوں کا دوسرا حرم ہے۔، یہ فلسطینی مسلمانوں کی اصل سرزمین ہے، جنہیں عالمی استکبار نے غاصب صہیونیوں کے ہاتھوں آج سے 70 سال قبل سنہ 1948میں اپنے وطن سے جلاوطن کرکے قدس کو غاصب صہیونیوں کے تصرف میں دے دیا تھا۔ مسلہ فلسطین ایک سیاسی اور فوجی جدوجہد کے عنوان سے عالم اسلام کے سب سے اہم اور تقدیر ساز مسئلے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ بلا شبہ سرزمین فلسطین مسلمانوں، یہودیوںور، عیسائیت کےلئے اہم اور متبرک ہے۔مگریہودو نصارا کی کارستانیوں سے مشرق وسطیٰ میں فلسطین فلیش پوائنٹ بن چکاہے۔فلسطینی وزات خارجہ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ کیاسرائیلی وزیر اعظم کی تھپکی سے سرائیل نے شمالی غزہ کے علاقے الکرامہ میں بین الاقوامی سطع پرممنوعہ فا سفورس بموں سے فلسطینیوں کی نسل کشی کا اغازکر چکا ہے ، اوربیگناہ شہریوں کے قتل عام اور خوفناک تباہی پر امریکہ سمیت یورب خاموش تماشاہی ہے۔اور امریکہ کے زیر اثراقوام متحدہ اور سلامتی کونسل جبکہ اسرائیلی نقصان کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ممنوعہ فاسفورس سے زمین میں آگ بھڑک اٹھتی ہے۔اور انسانی ہڈیاںجل جاتی ہیں۔جبکہ فلسطینی عوام کا جزبہ حب الوطنی اور قربانیاں لائق تحسین ہیں۔مگر مسلمہ اُمہ فلسطینیوںں کی حمایت میں تاخیر اور چشم پوشی کرنے والوں پر ہرگز قابل رحم نہیں۔قرآنِ مجید کی سورة المائدہ ایت 51 میں یہود ونصاری اور مشرکین سے دوستی کی ممانعت کی گئی ہے۔ ترجمہ’ اے ایمان والو ! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناو¿ ، یہ تو باہمی دوست ہیں۔ تم میں سے جو ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک ان ہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔“اس ایت کریمہ وااضع ہوتا ہے کہ۔یہودو نصارا کا ظلم انکا شیوہ ہے ، انکا دوست بھی ظالم ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے نہی کرتوتوں کی وجہ سے ہٹلر نے گیس کے چیمبر میں ڈال کر دس لاکھ یہودیوں کو مارڈالا تھا اور اس کے بعد یہ بھی کہا تھا کہ: “میں کچھ یہودیوں کو صرف اس وجہ سے چھوڑ دے رہا ہوں ؛ تاکہ دنیا ان کو دیکھ کر یہ جان لے کہ میں نے انہیں کیوں مارا تھا”۔ہٹلر کا قوم سچ ثابت ہوا۔کہ اج فلسطینی مسلمان انہی کے ظلم و جبروت کا شکار ہے۔اسرائیل کی جانب سے فلسطینی نہتے مسلمانوں پرمیزائیلوں سے بمباری، گرفتار کرکے جیل میں پابند سلاسل کرکے اذیتیںدینااور ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اپنے حقوق کے مطالبہ کرنے والوں کو دہشت گرد اور جنگجو کہا جاتاہے،، ایسی ظالمانہ حرکتوں سے انسانیت شرمسار ہو رہی ہے۔مگر اقوام عالم خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔جبکہ اسرائیل فلسطینیوں کو نیست ونابود کرنے، دیگر مسلم ممالک پر قبضہ کر کے غلام بنانے کے منصوبے پر پوری طرح عمل پیرا ہے، اسرائیل مشرق وسطیٰ کے پورے مسلم علاقوں کو اپنی میراث سمجھتا ہے، جسکا اظہار اسرائیلی پارلیمنٹ کی پیشانی پر لکھا ہوا یہ جملہ کرتا ہے: “اے اسرائیل! تیری سرحد نیل سے فرات تک ہے”۔ اسلام و فلسطین دشمن مغربی طاقتیں اسرائیل غاصب اور ناجائز ریاست بنانے پر متحد ہیں۔اسی بنا پر صیہونی طاقتوں نے ہر فورم پر مسلمانوں کو دھوکا دیا اور عربوں کا اعتبار کر لینے والی فطرت سے پورا پورا فائدہ اٹھارہا ہے۔ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کو معلوم ہے کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں ۔مگر مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ حکومت پاکستان نے فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کی شدید مذمت کرتے کہا کہفلسطینیوں کےخلاف اسرائیل سمیت پورا یورپ امتیازی سلوک اپنا رہا ہے۔ غزہ میں شہری آبادی کو فاسفورس بم کو نشانہ بناکر معصوم جانوں کا ضیاع اور غذائی اشیاءروکنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس ظالمانہ اقدام پر انسانی حقوق کی تنظیمیں کیوں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اسرائیل اپنی توسیع پسندانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے،سر زمین فلسطین پرغاصبانہ قبضےکا متمنی ہے۔فلسیطینوں کا چین وسکون کی زندگی تباہ کیا جا چکا ہے۔اج یہ مسئلہ انسانیت کا برنگ پوائیٹ بن چکا ہے۔مگر فلسطینی مسلما ن نے مغرور طاقتور دشمن پر فتح پانے کیلئے شہادت کوگلے کا ہااورموت کو اپنا ہتھیار بنا لیتا ہے۔
بلاشبہ پاکستان عرب اسرائیل تعلقات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔صہیونی طاقتوں کی کوشش ہے کہ وہ بلاچوں و چراں اسے تسلیم کرلے۔حالانکہ ستاون عرب ممالک سے چھتیس غاصب اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر چکے ہیں۔ جسکے درپردہ امریکہ ،یورپ اور اسرائیل کی سازش کارفرما ہے۔۔ اگر عوامی رائے عامہ کا خوف نہ ہوتا تو کئی مسلمان اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہوتے۔ یہی رائے عامہ مسئلہ فلسطین کو دفن ہونے سے بچا رہی ہے ۔ مسلم اُمہ کوہوش کے ناخن لیں۔ اسرائیل ظالم اظلم اور ساری انسانیت کےلئے ایسا زہریلا ناگ ہےجوسپیرےکو بھی نہیں بخشتاہے۔اقوام متحدہ کی ٹ لگانے والوں۔ یہ ادارہ کٹھ پتلی ہے،پالسیاںامریکہ اور اسکے ہواری بناتے ہیں۔مسلمانوں کو صرف لالی پوپ دیاجاتاہے۔یہودیوں کو بیت المقدس کی فضیلت اور اعزازسے نا بلد ہیں ۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس سر زمین پر بکثرت انبیا ءکرام کومبعوث فرمایا،اور کئی علاقوں سے انبیاءکرام نے ہجرت فرماکر اس علاقے کو اپنامسکن بنایا، جن میں سیدناابراہیمؑ، سیدنااسحاق،سیدنایعقوب، سیدنا یوشع ،سیدنا موسیٰؑ نے تو اس سرزمین پر اپنی موت کےلئے اللہ تعالیٰ سے دعافرمائی تھی۔(صحیح بخاری: 1339 )سیدنا دﺅاد،سیدنا سلیمان،سیدنازکریا، سیدنا لوط،سیدنا یحیٰ نے سکونت اختیار کی۔مگریہودیوں نے سیدنا عیسی ٰکے قتل کی سازشیں کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ اسمان پر اٹھالیا،قیامت کی علامات کا ظہوراور عیسیٰ کا دوبارہ نزول اسی سرزمین پر ہوگا۔محمدرسول اللہﷺ کی پیدائش اور بعثت مکہ میں ہوئی لیکن معراج کے موقعہ پر اپﷺ کو اس مقدس سرزمین یعنی مسجداقصیٰ کی سیر کرائی گئی۔ جہاںاپپ نے تمام انبیاءکرام کی امامت فرمائی اور معراج کی ابتداءبیت المقدس سے ہوئی۔مگر جارح اسرائیلی ایسی قوم ہے جو بے وفائی، دھوکا دہی، غداری، عہد شکنی انکی سرشت میں داخل ہے ۔ اسرائیلی قوم نے معصوم انبیا ءکو شہیدکیا، نازیبا الزامات اور حرکتیں کیں۔جو بیان کرنے کی قلم میں بھی طاقت نہیں۔اسکی اصل دشمنی اسلام اور مسلمانوں سے ۔وہ ہر مذہب و ملت کو غلام بناناجنون میں مبتلاہے ۔ 1960 امریکی صدر جان ایف کنیڈی نے اسرائیل سے جوہری پروگرام کی تفصیل کا مطالبہ کیا ، تو اسرائیل نے جوہری اسلحوں کی تیاری میں اس قدر بے لگام اور مغرور تھاکہ اس نے اپنے محسن و معاون اور سر پرست امریکی صدر کنیڈی کو جاسوسوں کے ذریعہ قتل کروادیا،بعد ازاں کسی امریکی صدر نے جوہری اسلحہ کے بارے دباو ڈالا کی جرات نہ کی۔( اسرائیلی مصنف “اسرائیل اینڈ دی بم” دیکھئے)۔یاد رہے کہزعیم قوم قائد اعظم نے 1938 میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرتے فرمایا۔ کہ اسرائیلی حکومت یورپ و امریکہ کی ناجائز اولا د ہے۔ر ال انڈیا مسلم لیگ نے فلسطین کی ازادی کےلئے اواز اٹھاکر1933 ۱سے1946 تک اٹھارہ قرار دادیں منظور کرائیں۔مگر اسرائیلی قوم کی ہٹ دھرمی،حق تلفی سے یہ مسلہ تا حال حل طلب ہے۔ یہودیوں کی بے وفائی، دھوکا دہی، غداری، عہد شکنیاسکی گھٹی کا اہم جزو ہیں۔مسلمانوں کی یہ مذہبی ،ملی فریضہ ہے۔کہ ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر متحد اور باہمی موانست سے آہنی طاقت بنکرظالم صہیونیوں کے مقابلہ کےلئے سر بکفن ہوکر اس قرانی ایت ”نَص±ر“ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَت±ح‘’ قَرِی±ب‘’َ“۔ترجمہ : اللہ کی مدد اور جلدآنے والی فتح ہے۔اب یہی حربہ فلسطینمیں قیام امن کاضامن ہو سکتا ہے۔ورنہ سرائیلی چیرہ دستیاں،شرر چقماق اور بارود ی الاﺅ مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دینا کاامن و سکون بھسم کر دےگا۔