کراچی: نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے محکمہ لیبر کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے متعلقہ ڈائریکٹوریٹ کو فعال کرے تاکہ صنعتی اکائیوں میں تمام محنت کشوں خاص طور پر خواتین ورکرز کے ساتھ ان کی تنخواہوں، ریگولرائزیشن اور ریٹائرمنٹ کے حوالے سے امتیازی سلوک کو ختم کیا جاسکے۔
یہ ہدایات انھوں نے یہاں وزیراعلیٰ ہاؤس میں محکمہ لیبر اور پائلر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرامت علی کی قیادت میں 29 رکنی وفد کے مشترکہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جاری کیں، نگران وزیراعلیٰ سندھ نے مختلف صنعتی یونٹس میں کام کرنے والے مزدوروں کے درپیش مسائل سنے اور محکمہ لیبر کو انھیں حل کرنے کا حکم دیا۔
ایک سوال کے جواب میں سیکریٹری لیبر شارق احمد نے نگران وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا کہ کم از کم اجرت 32000 روپے کی کابینہ سے منظوری ہونا باقی ہے، نگران وزیراعلیٰ سندھ نے انھیں ہدایت کی کہ وہ کابینہ کیلیے سمری پیش کریں اسے سرکولیشن کے ذریعے منظور کریں اور پھر اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔
نگران وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ خواتین محنت کشوں کو مرد ورکرز کے مقابلے میں کم تنخواہ کی دی جاتی ہے، جب خواتین ورکرز کو خاص طور پر ٹیکسٹائل سیکٹر میں42تا45سال کی عمر کو پہنچ جاتی ہیں تو انھیں بوڑھا قرار دیکر نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے یا ملازمت دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
جسٹس (ر) مقبول باقر نے اسے سنجیدگی سے لیا اور محکمہ لیبر کو ہدایت کی کہ وہ اس طرح کے غیر انسانی امتیاز کے خاتمے کے لیے ضروری انتظامی اقدامات کرے، جسٹس (ر) مقبول باقر نے لیبر کورٹس میں اسٹاف کی کمی پر قابو پانے کی بھی ہدایات جاری کیں۔
نگران وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ لیبر کو ہدایت کی کہ وہ سیسی کے ورکرز کا ڈیٹا ای او بی آئی کے ساتھ ملا کر انھیں رپورٹ کریں،مزدور رہنماؤں نے ایک فیکٹری میں آتشزدگی کے واقعے کی نشاندہی کی جس میں17اکتوبر2023کو وہاں کام کرنیوالے دو بچوں کی زندگیاں ختم ہوگئیں۔
نگران وزیراعلیٰ سندھ نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ لیبر سے پوچھاکہ جب صنعتی یونٹ میں بچوں کو ملازمت دے رہے تھے تو وہ کیا کر رہا تھا، انھوں نے محکمہ لیبر سے واقعے کی رپورٹ طلب کی اور متاثرین کے اہل خانہ کے لیے معاوضہ بھی شامل کیا۔
نگران وزیر اعلیٰ نے صنعتی یونٹس میں کام کرنے والے مزدوروں کے مسائل سنے اور محکمہ لیبر کو انھیں حل کرنے کا حکم دیا