اسلام آباد: پاکستان میں 5 جی اسپیکٹرم کی نیلامی کیلیے اعلیٰ سطحی کمیٹی کے قیام کا فیصلہ خوش آئند ہے۔
نگراں وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی نے 2024 تک 5 جی لانچ کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے، لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ جن کے نتیجے میں ٹیلی کام سیکٹر کو فروغ مل سکے، کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر ٹیلی کام کمپنیاں کاروبار سے پیچھے ہٹ رہی ہیں، جو کہ منفی اشارہ ہے۔
ٹیلی کام کمپنیوں کو جو مسائل درپیش ہیں، ان میں آپٹک فائبر کی رسائی، مہنگے اسمارٹ فون، ٹیلی کام کمپنیوں کی مالی پوزیشن جیسے مسائل اہم ہیں، اس کے علاوہ بجلی کے ٹیرف اور اسپیکٹرم کے مسائل بھی ٹیلی کام سیکٹر کو نقصان پہنچا رہے ہیں، پاکستان کا اسپیکٹرم اس وقت 269.2 میگا ہرٹز ہے، جس کو آسانی سے ڈبل کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں جب بھی اسپیکٹرم کی نیلامی ہوتی ہے تو ابتدائی قیمت اتنی زیادہ رکھی جاتی ہے کہ سرمایہ کار نیلامی کے عمل سے دور ہوجاتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ حکومت اسپیکٹرم کی نیلامی سے محض پیسہ بنانا چاہتی ہے اور اس سے معاشی فوائد کے حصول پر حکومت کی نظر نہیں ہے۔
اسپیکٹرم کی قیمت ڈالر میں رکھے جانا بھی اہم مسئلہ ہے، اس وقت خاص طور پر جبکہ روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوچکی ہے، تو ڈالر میں قیمت رکھنے کی وجہ سے اسپیکٹرم کی قیمت میں بہت اضافہ ہوچکا ہے، جبکہ ٹیلی کام کمپنیوں کی آمدنی روپوں میں ہوتی ہے اور ان کیلیے ڈالر میں ادائیگی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔