وہ بہت ساری تصاویر تھیں۔ سیکڑوں نہیں، ہزاروں تصاویر، جو امریکی، اسرائیلی، برطانوی، یورپی اور مغربی ماؤں کو موصول ہوئی ہیں۔ اتنی ہی تصاویر، ان ممالک کے سربراہوں، فوجی افسران، تھنک ٹینک مفکرین اور دفاعی ماہرین نے بھی وصول کیں۔ ہر لفافہ سادہ تھا، جس پر لہو میں ڈوبے ایک بچے کا نشانِ انگشت تھا اور لکھا کچھ بھی نہیں تھا۔
ہر لفافے میں ایک مردہ بچے کی تصویر تھی۔
امریکا میں سفید گھر کے بادشاہ کو جو تصویر ملی اس میں ایک نیلے چہرے والے شیر خوار بچے کے ہونٹوں پر ماں کا دودھ جما تھا اور بم کے گولے نے اس کے سینے میں غار کردیا تھا۔ جنابِ صدر نے یہ تصویر ردی کی ٹوکری میں ڈال دی۔
سان فرانسسکو کی باربرا آج بہت خوش تھی اور آئینے میں کھڑی اپنے سڈول جسم دیکھ رہی تھی جو متعدد آپریشن کا مرہونِ منت تھا۔ اس کی فیکٹری کا اسلحہ کامیابی سے غزہ میں استعمال ہوا تھا اور اس خوشی میں رات کو شراب نوشی کی طوفانی محفل منعقد کی گئی تھی۔
تصویر میں دو دو سال کے وقفے سے چار مردہ بہن بھائی لیٹے تھے، جو الشفا اسپتال پر پھینکے گئے آسمانی فاسفورس سے جھلس کر پہچانے نہیں جارہے تھے۔ باربرا نے یہ تصویر نوچ کر پائیں باغ کی جانب اچھال دی۔
تل ابیب کا رہائشی پائلٹ جب غزہ میں 120 واں بم گرا کر گھر پہنچا تو اسے بھی یہ لفافہ ملا جس میں ایک سفید فراک میں ملبوس بچی کی تصویر نکلی، جس کا نصف سر بارود نے کچل دیا تھا اور آدھی فراک خون میں سرخ ہوچکی تھی۔ پائلٹ نے یہ تصویر بیت الخلا میں فلش کردی اور دوبارہ بم گرانے کے جوش میں اپنے گھر سے نکل گیا۔
لیکن جو تصاویر امریکی، اسرائیلی، برطانوی، یورپی اور مغربی ماؤں کو موصول ہوئیں، وہ بھی کوڑے دان، بیک یارڈ یا سڑکوں پر پھینک دی گئیں اور کوئی اثر نہیں ہوا۔ کوئی یہ بھی نہیں پوچھ رہا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں یہ لفافے کس نے بھیجے۔
خون آلود مناظر سے بھرپور تصاویر اب سڑکوں، نالوں، باغوں اور خالی پلاٹوں پر بکھری پڑی تھیں۔ لیکن پھر عجیب واقعہ ہوا۔ مشیت ایزدی سے ایک فرشتہ آسمان سے اترا، اس نے پوری زمین کا چکر لگایا، وہ ہر تصویر اٹھاتا، اسے صاف کرتا اور سینے سے لگاتا۔ وہ بروکلِن گیا، ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ پہنچا اور وہاں سے تل ابیب گیا اور ہر میدان، کوڑے دان سے تصاویر اٹھاتا رہا۔
جب وہ غزہ پہنچا تو شدتِ جذبات سے بہت رویا۔ اس نے ساری تصاویر کو سلیقے سے تہہ بہ تہہ لگایا اور عرش کی جانب بلند ہوا۔ وہ جہنم جارہا تھا اور سخت گھبرایا ہوا تھا۔ لیکن ایک مرتبہ گزر کر اس نے جنت میں جھانکا تو تصاویر والے سارے بچے خوبصورت لباس میں وہاں موجود تھے۔ کوئی شیریں دودھ پی رہا تھا، کچھ بچے اپنے والدین کے ساتھ مسکرا رہے تھے اور کچھ پھول چن رہے تھے۔
اسے کچھ ڈھارس ہوئی، اس کی آمد پر جہنم کا سب سے بڑا دروازہ کھولا گیا تو آگ کی ایک ہولناک لپٹ آئی اور اس کی پیشانی کا پسینہ بھاپ بن کر اڑ گیا۔
اس نے ہمت کرکے ساری تصاویر جہنم میں پھینک دیں۔ لیکن تمام تصاویرکی ماہیت بدل گئی جو حیران کن امر تھا۔
چاروں بہن بھائی کی تصویر لوہے کے دہکتے آنکڑوں، گرزوں، زنجیروں میں بدل گئیں۔ شیر خوار کی تصویر نوکیلے طوق میں ڈھل گئی۔ اور بعض تصاویر ہولناک عفریت اور بلاؤں تو کچھ ابلتے سرخ لاوے کی شکل اختیار کرگئیں۔ اچانک ایک بہت بڑا سرخ کتبہ نمودار ہوا جس پر صاف حروف میں یہ لکھا تھا:
’’تبدیل شدہ تصاویر کا یہ عذاب منتظر ہے ان کا جو اس کے ذمے دار ہیں۔‘‘
بلاشبہ یہ تحریر اطمینان بخش تھی۔ لیکن یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔
فرشتہ دوبارہ زمین پر آیا اور تمام اسلامی ممالک کے ذمے داروں، سپہ سالاروں اور حکومتی اہلکاروں کے نام لکھ کر لے گیا۔ کسی نام کے آگے اس نے بزدل لکھا، کسی کے سامنے مادہ پرست تحریر کیا تو کسی کو مصلحت کوش قرار دیا۔ پھر وہ اس فہرست کو لے کر جہنم کی جانب روانہ ہوا۔