نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ دو سال قبل مذاکرات کاجو ڈھونگ رچایا گیا تھا تو ٹی ٹی پی کے لوگ کابل میں عملی طور پر ان مذاکرات میں شریک تھے۔
اب یہ فیصلہ افغان طالبان کو کرنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو ہمارے حوالے کرنا ہے یا ان کے خلاف خود کارروائی کرنی ہے۔ یہ بات قابل برداشت نہیں کہ افغان سرزمین سے ہمارے خلاف کارروائیاں کی جائیں اور افغان طالبان تماشا دیکھتے رہیں۔
بلاشبہ نگران وزیراعظم نے جس واضح اور دوٹوک موقف کا اظہار کیا ہے وہ نہ صرف درست ہے بلکہ مسئلہ کے صائب حل تلاش کرنے کی خواہش کا اظہار بھی ہے
دراصل افغانستان عبوری حکومت کو دوحہ معاہدے سے انحراف نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ ان مذاکرات میں افغان طالبان کی قیادت موجود تھی، دوحہ معاہدے میں افغان سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے ساتھ ساتھ القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کو افغان سرزمین پر کام کرنے کی اجازت نہ دینے کا عہد بھی شامل ہے۔
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغانستان کی عبوری حکومت کے فیصلہ سازوں کا افغانستان میں موجود دہشت گروہوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے ؟ یا پھران کے پاس اتنی عسکری قوت نہیں ہے کہ دہشت گرد گروہوں کو کچل سکیں، اگر یہ دو پہلو نہیں ہیں تو اس کا کیا مطلب لیا جاسکتا ہے؟ القاعدہ، داعش خراسان، ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک متعدد چھوٹے بڑے گروپوں کے دہشت گردوں نے جو کارروائیاں پاکستان میں شروع کی ہیں۔
ان کے ڈانڈے افغانستان میں موجود مراکز سے ملتے ہیں۔ افغانستان حکومت کے زعما اس حوالے سے جو موقف اختیار کررہے ہیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ انھیں حقائق کا علم ہے، اس کے باوجود اگر طالبان حکومت اپنے ملک کے اندر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں کررہی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ افغان عبوری حکومت ٹی ٹی پی کو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے تاکہ پاکستان کو غیر مستحکم رکھا جائے۔
پاکستان نے امن، مصالحت، تعمیرِ نو اور اقتصادی ترقی کے تمام اقدامات کی حمایت جاری رکھتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاکستان نے دوحہ مذاکرات سے لے کر افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام، اسے تسلیم کرانے، سلامتی کونسل میں اس کے حق میں راہ ہموار کرنے میں گرم جوشی کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ امریکا میں اس کے منجمد اثاثوں کی بحالی کے لیے بھی بھرپور کوششیں کی ہیں۔
اس کے باوجود افغان حکومت کے فیصلہ ساز دانستہ یا ناداستہ ظاہر شاہ اور سردار داؤد کے دور کی سوچ پر عمل پیرا ہیں۔ پاک افغان سرحد پر حالیہ کشیدگی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ آخر افغان سرحد پاکستان کے لیے محفوظ کیوں نہیں؟ کیا افغان حکومت اپنی خدمات ہر اس ریاست یا گروہ کے لیے پیش کریں گے جو انھیں مالی معاونت فراہم کریں گے؟
کیا افغانستان کے اقتدار پر قابض گروپ کے مالی مفادات اس گہر ے ہیں کہ انھیںایسا نظام قبول نہیں ہے جو افغانستان کی عبوری حکومت میں شامل طاقتور طبقے کی جوابدہی کے اصول پر قائم ہو؟ بظاہر افغان عبوری حکومت کی جانب سے اپنائے گئے طرز عمل سے اس مفروضے کو خاصی تقویت مل رہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں کارروائی کرنے والے دہشت گردوں کے پاس جدید ترین جنگی ہتھیاروں جن میں تاریکی میں دیکھنے والے آلات شامل ہیں ہیں۔
اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ جب بھی پاکستان نے پاک افغان سرحد حفاظتی اقدامات بہتر بنانے شروع کیے ، اسمگلنگ اور غیرقانونی آمد و رفت روکنے کے لیے اقدامات شروع کیے ہیں، پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ان حملوں میں پاک فوج کی چوکیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ابتداء میں افغان عبوری حکومت اس طرح کی کارروائیوں سے خود کو لاتعلق ظاہر کرتے ہوئے آیندہ کے لیے ایسے حملوں کی روک تھام کی یقین دہانیاں کراتی رہی لیکن گزشتہ چند ماہ سے افغان حکومت نے لفظی تکلف بھی ختم کر دیا ہے اور ایسے بیانات دیے جا رہے ہیں کہ جیسے سارا قصور پاکستان کا ہے، حالانکہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے لوگ موجود ہیں اور آزادانہ نقل و حرکت کرتے ہیں۔
ان کے لوگ پاکستان میں دہشت گردی کے کی وارداتوں میں ملوث ہیں، پاکستان میں غیرقانونی سرگرمیوں، دہشت گردوں کی سہولت کاری کے جرم میں کئی ایسے افراد پکڑے گئے ہیں، جن کا تعلق افغانستان سے ہے اور وہ غیرقانونی طورپر پاکستان میں قیام پذیر تھے۔ آج بھی پاکستان میں متحرک دہشت گرد افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اب ان کے پاس امریکی افواج کے کابل میں چھوڑے ہوئے جدید ہتھیار موجود ہیں۔
افغان حکومت نے کبھی یہ وضاحت بھی نہیں کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کے پاس دنیا کے مہنگے ترین ہتھیار کیسے آئے ہیں؟افغان سوشل میڈیا ایکٹوسٹس پاکستان کے خلاف نفرت انگیز، زہریلا اور انتہائی تکلیف دہ تبصرے جاری ہیں۔
پاکستانی کرنسی کا مذاق اڑیا جارہا ہے، پاکستان کو دھمکی آمیز پیغامات دیے جا رہے ہیں۔ افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کا طرز عمل سب پر عیاں ہے۔ صرف اس لیے کہ پاکستان نے پاک افغان سرحد کی نگرانی سخت کردی ہے، ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں غیرقانونی کاروباری سرگرمیاں اور اسمگلنگ کو سختی سے روکنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
پاکستان کے مراعات یافتہ طبقے کا حصہ اپنے ہی ملک کے مفادات کے خلاف کام کررہا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو پاکستان کے وسائل ہضم کرکے امیر ہوا ہے، اعلیٰ عہدوں پر تنخواہیں اور مراعات لیتا ہے، اس کے باوجود پاکستانی عوام کے مفادات کو نقصان پہنچانے سے باز نہیں آرہا ہے۔
اب پاکستان میں معیشت کی بحالی کے لیے آرمی چیف کے حالیہ فیصلوں کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ اسمگلنگ روکنے کے علاوہ افغان ٹریڈ معاہدوں کے تحت افغانستان سے اسمگل ہوکر واپس پاکستان آنے والے اس غیر ملکی سامان کو بھی روکا جائے جو افغان تاجر کراچی کی بندرگاہ سے افغانستان منتقل کرنے کے بعد واپس پاکستان بھیج کر پاکستان کے قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں۔
پاکستان کے سیکیورٹی ادارے کئی ماہ سے شدت پسندوں کے حملوں کی وجہ سے مسلسل بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھا رہے ہیں۔ افغانستان کے فیصلہ ساز اپنی ذمے داریاں قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور یہ کہہ کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کررہے ہیںکہ اسلام آباد اسے خود حل کرے۔
ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کی وجہ سے دونوں ہمسایہ ممالک کے عوامی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ دہشت گرد افغانستان سے بلا روک ٹوک پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، قتل عام کرنے کے بعد واپس چلے جاتے ہیں لہٰذا افغان حکومت اپنی ذمے داری سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے، کیونکہ یہ ریاستی معاملات ہیں ومعاہدات ہیں، ریاستوں کے فیصلے جرگے یا پنچایت کے اصول کے تحت طے نہیں پاتے۔
درحقیقت افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، پاکستان میں سسٹم کو یرغمال بنائے ہوئے بااثر طبقات نے اس حوالے انٹیلجنشیا میں غلط فہمی پھیلائے رکھی، یہ خبر پھیلائی گئی کہ افغان طالبان کے امیر نے پاکستان کے خلاف حملوں سے منع کرتے ہوئے ایک حکم نامہ بھی جاری کیا، لیکن یہ حکم نامہ کہاں ہے ، اس کا سرکاری نوٹیفکیشن کہاں ؟اس کا کسی کو پتہ نہیں ہے۔
جس طرح پاکستان اپنے ملک میں مقیم غیر قانونی افغان باشندوں کی واپسی کے لیے سنجیدگی سے اقدامات اٹھا رہا ہے، اصولی طور پر اب طالبان حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی سرزمین پر بھی مقیم ٹی ٹی پی کے کارندوں کو پاکستان کے حوالے کرے ۔
افغان حکومت ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے نہ ہی اس کا کوئی ایسا ارادہ نظر آتا ہے اور یہ وہ صورت حال ہے جس پر نہ صرف پاکستان کی حکومت بلکہ سیکیورٹی ادارے بھی نالاں ہیں اور اگر یہ صورت حال اسی طرح جاری رہی تو اس سے دونوں برادر ممالک کے باہمی تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
کابل حکومت کو جتنا جلد ہمسایہ ممالک سے تعلقات کی اہمیت کا احساس ہوگا، اتنا ہی دونوں ملکوں کے حق میں بہتر ہوگا۔ افغان حکمران جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں وہ اپنی جگہ لیکن دنیا میںیک طرفہ پالیسیاں اختیار کرنے کے نتائج کبھی بہتر نہیں نکلتے۔