مقبوضہ بیت المقدس، دوحا: حماس اور اسرائیل کے مابین 4 روزہ عارضی جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا، جس پر عمل درآمد کل صبح 10 بجے سے ہوگا۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق قطر، مصر اور امریکا کی ثالثی کے ذریعے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس اور صہیونی ریاست اسرائیل کے درمیان 4 روزہ عارضی جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا،جس پر عمل کل جمعرات کی صبح 10 بجے سے ہوگا۔
حماس کے رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے جمعرات کی صبح 10 بجے سے عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر عمل کی تصدیق کردی ہے۔ طے پائے گئے معاہدے کے مطابق فریقین مقررہ مدت کے دوران ایک دوسرے پر حملے نہیں کریں گے نیز اسرائیل غزہ میں اپنے تمام فوجیوں کو کسی بھی قسم کی کارروائی سے روکے گا اور محصور پٹی میں داخل ہونے والی فوجی گاڑیاں اور ٹینک نقل و حرکت نہیں کریں گی۔
عرب میڈیا کے مطابق فلسطینی رہنما نے ٹی وی پر دیے گئے اپنے بیانات میں وضاحت کی ہے کہ جنگ بندی کے دوران جنوبی غزہ میں پروازیں بند کرنا اور شمال میں 10 سے 4 بجے تک پروازیں روکنا بھی معاہدے کا حصہ ہے۔معاہدے کے تحت یرغمالیوں کو ہلال احمر کی نگرانی میں رفح کراسنگ کے راستے لایا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ بیشتر یرغمالیوں کا تعلق مقبوضہ مغربی کنارے سے ہے، لہٰذا انہیں براہ راست ان کی رہائش گاہوں پر منتقل کیا جائے گا جب کہ بیشتر اسرائیلی قیدی غرہ ملکی شہریت کے حامل ہیں۔
قبل ازیں فلسطینی تحریک مزاحمت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ کئی دن تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد قطر اور مصر کی کوششوں سے 4 روزہ عارضی جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے نتیجے میں شمالی اور جنوبی غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد، طبی اور ایندھن کی ضروریات پر مبنی امداد کے سیکڑوں ٹرکوں کو داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔
یاد رہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں خصوصاً غزہ پر 7 اکتوبر سے مسلسل حملے اور بم باری جاری ہے، جس کے نتیجے میں پہلے سے محصور پٹی تباہی کا منظر پیش کررہی ہے جب کہ صہیونی جارحیت کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 14 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں بڑی تعداد خواتین و بچوں کی بھی شامل ہے۔ اسی طرح 33 ہزار سے زیادہ فلسطینی زخمی ہوئے ہیں جب کہ آبادیوں کی تباہی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت 19 سال سے کم عمر 50 اسرائیلی خواتین و بچوں کو رہا کیا جائے گا جب کہ دوسری جانب سے 19 سال سے کم 150 خواتین و بچوں کو رہا کیا جائے گا۔ معاہدے کی مدت کے دوران اسرائیلی فوج کی جانب سے مقبوضہ علاقوں سے کسی بھی فلسطینی کی گرفتاری اور علاقوں پر بمباری یا حملے نہیں کیے جائیں گے۔
اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ معاہدے کی شرائط کو اپنے عزم اور وژن کے مطابق بنایا گیا ہے، جس کا مقصد اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں فلسطینیوں کی استقامت کو مزید مضبوط بنانا ہے، جو دہائیوں سے اسرائیلی مظالم سہتے ہوئے ارض مقدس کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔
فلسطینی سیاسی تجزیہ کار اور القدس یونیورسٹی کے پروفیسر ایمن الرقاب نے کہا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ دراصل حماس کے حق میں ہے، جس نے اسرائیل کو اپنی شرائط تسلیم اور مذاکرات کرنے پر مجبور کیا ہے کیوں کہ اسرائیل کی جانب سے کئی ہفتوں تک جنگ بندی کو مسترد کرنے کے بعد مذاکرات پر مجبور کیا گیا ہے۔
عرب میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ حماس کے خلاف کارروائیوں کے دوران اسرائیلی فوج کو بہت بڑا جانی و مالی نقصان ہوا ہے جب کہ اسرائیل اپنے یرغمالیوں کو بھی طاقت کے زور پر رہا کروانے میں ناکام ثابت ہو گئی۔
بین الاقوامی امور کے لبنانی محقق علوان امین الدین نے کہا ہے کہ جنگ بندی سے دونوں فریقوں کو فائدہ اٹھانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو فوجی، سیاسی اور اقتصادی سطح پر بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے جب کہ مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیلی فوج کو غیر معمولی نقصان کا اپنی مہارت اور صلاحیت کو ثابت کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے دوران حماس کو ایندھن، ادویات اور خوراک کے ذرائع محفوظ بنانے کے ساتھ اسرائیلی بمباری میں زخمی ہونے والوں اور ملبے تلے دبے افراد کو نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا موقع ملے گا۔
علوان امین الدین کے مطابق اسرائیل کم و بیش 8 دہائیوں سے فلسطین پر حملے اور فلسطینیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور اسے کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی دوسری جانب حماس کو اسرائیل کی حالیہ بمباری میں اقوام متحدہ کی تنصیبات اور اسپتالوں کی تباہی کے علاوہ ہزاروں فلسطینی خواتین و بچوں کی شہادت کے بعد عالمی سطح پر حمایت حاصل ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل اپنی مسلسل جارحیت کی وجہ سے یورپی ممالک کی حاصل حمایت بھی تقریباً کھو چکا ہے جب کہ حماس کو روس اور چین سمیت عالمی طاقتوں کی سیاسی حمایت ملی ہے۔جنگ بندی کا حالیہ معاہدہ دراصل حماس کی عسکری اور سیاسی فتح ہے۔