سنگین غداری کیس میں پرویزمشرف کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ لاہور ہائیکورٹ خصوصی عدالت کے فیصلے کو نظرانداز کرکے فیصلہ نہیں دے سکتی تھی۔
سپریم کورٹ میں سنگین غداری کیس کے معاملے میں نئی پیشرفت، پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل اور لاہور ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے سماعت کی۔
خصوصی عدالت کو غیر قانونی قرار دینے والے لاہور ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف حامد خان دلائل کے لیے پیش ہوئے۔ پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے۔
حامد خان نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف تحریری دلائل جمع کرا دیئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل مکمل ہوگئے ہیں۔ اب ہم تحریری معروضات کا جائزہ لے لیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں خصوصی عدالت کے فیصلے کا ذکر کیا؟ کیا کہیں ذکر ہے کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے؟ ایسا نہیں تو پھر خصوصی عدالت کا فیصلہ تو آن فیلڈ ہی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے جب فیصلہ دیا تو کیا خصوصی عدالت فیصلہ سنا چکی تھی۔ لاہور ہائیکورٹ نے جب خصوصی عدالت کے فیصلے پر کچھ نہیں کہا تو اکیڈمک مشق کی کیا ضرورت تھی؟
چیف جسٹس نے پاکستان بار کونسل کے نمائندے کی تیاری نہ ہونے پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ سے ہمیں معاونت نہیں مل رہی۔ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے جب فل کورٹ تشکیل تجویز کی تو اگلی تاریخ کیسے دی؟ فل کورٹ تشکیل دینا نہ دینا تو پھر چیف جسٹس کا اختیار تھا۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ آجانے کے بعد تو لاہور ہائیکورٹ میں زیر التواء درخواست غیر موثر ہو چکی ہے۔ فیصلے کے بعد ہائیکورٹ میں درخواست ترمیم کے بعد کی چل رہی تھی۔ لاہور ہائیکورٹ خصوصی عدالت کے فیصلے کو نظرانداز کر کے صرف عدالت کی حیثیت پر فیصلہ نہیں دے سکتی تھی۔ خصوصی عدالت ایک ریگولیٹر عدالت تھی ہی نہیں، وہ تو ایک فیصلے کیلئے تھی۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ پرویز مشرف بھی سمجھتے تھے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد بھی خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار ہے۔ پرویز مشرف نے اسی لیے خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔
چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ کیا آپ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو جانتے ہیں یا نہیں؟ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ مجھے اس سے متعلق ہدایات نہیں۔