نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ گوادر اور بلوچستان کی ترقی آگے کی جانب جا رہی ہے، جو لوگ سمجھتے ہیں اس کی ترقی کو روک دیں گے تو وہ تاریخی غلطی کر رہے ہیں۔ آئندہ دس سال میں چین اور اس کے اردگرد کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری اور تجارت ہوگی، اس تجارت میں شراکت داری کے لیے تیار کرنا ہوگی۔
انھوں نے گوادر میں ’’چین پاکستان دوستی اسپتال اور سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کے منصوبے‘‘ کا افتتاح کیا۔
پاکستانی معیشت پہلے کی نسبت بہتر پوزیشن میں ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہورہا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے مثبت خبریں آرہی ہیں ۔ پاکستان جنوبی ایشیا میں سرمایہ کاری کا مرکز بننے جا رہا ہے۔
اس میں بلوچستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے باعث اہم تجارتی مرکز ہو گا اور گوادر اور سی پیک کی اہمیت مسلمہ ہے۔ نگران وزیراعظم نے اپنے دورہ کے موقع پر زمینی حقائق کی روشنی میں بلوچستان کی ترقی کے ملک کی مجموعی ترقی کے ساتھ براہِ راست تعلق کو بھی اجاگر کیا ہے ۔
پاکستان میں اب بھی مہنگائی متوسط طبقے کا سب سے بڑا مسلہ ہے ۔ نچلے اور متوسط خاندانوں کو پریشان کن صورتحال کاسامنا ہے۔ اب ملک معیشت کے حوالے مثبت سمت میں سفر کررہا ہے ۔ اشیاء ضروریہ کی مہنگائی خودساختہ بھی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ ناجائز منافع خوری روکنے کے لیے کوئی میکنزم بنائے جب کہ پاکستان میں سیاحت کے اہم مواقع بھی موجود ہیں جو ملکی معیشت میں بہتری کا اہم ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے جاری اقدامات کے خاطر خواہ نتائج بھی نظر آرہے ہیں۔
روپیہ مستحکم ہورہا ہے۔پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی کا رجحان۔ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے بعد اورخلیجی ممالک اور چین کی جانب سرمایہ کاری بڑے معاہدوں طے پانے کے بعد ملک کی معاشی ٹرین کودوبارہ چل پڑی ہے ، لیکن دہشت گردی کا عفریت ایک بار پھر سر اٹھارہا ہے۔
اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ملک کی معاشی ترقی کے لیے امن وامان کی بہتر صورتحال بنیادی شرط ہے۔
پاکستان بہترین جغرافیائی محل وقوع رکھتا ہے، بڑھتے ہوئے متوسط طبقے اور دوستانہ سرمایہ کاری پالیسی کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان ایک اہم مارکیٹ کے طور پر ابھر رہا ہے، جہاں سرمایہ کاری کے حوالے سے سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔
معیشت کے تمام شعبے سرمایہ کاری کے لیے کھلے ہیں۔ رائلٹی، ٹیکنیکل اور فرنچائز فیس، منافع، سرمایہ اور غیر ملکی فوائد کی ترسیلات پر کسی پابندی کے بغیر 100 فیصد غیر ملکی ایکویٹی کی اجازت ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت قائم خصوصی اقتصادی زون (SEZ) میں سرمایہ کاری کے لیے خصوصی مراعات یونٹ اور منصوبوں کے قیام کے لیے مشینری اور آلات کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکس مراعات اور دیگر پرکشش مالی مراعات دی گئی ہیں.غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ترجیحی شعبے فوڈ پروسیسنگ، ٹیکسٹائل، لاجسٹکس، آٹوموبائل اور آئی ٹی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری ہو گی تو ملک میں بے روزگاری ختم ہوگی۔
کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔سرمائے کے استعمال سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرا اسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری طویل مدت میں سب سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گی۔ غیرملکی سرمایہ کار اپنے دفاتر اور پیداواری یونٹ یہاں لگا سکتے ہیں اور پاکستان سے دنیا بھر میں اپنی مصنوعات برآمد کرسکتے ہیں۔
پاکستان آئی ٹی انڈسٹری میں تیزی سے ترقی کررہا ہے اگر غیرملکی کمپنیاں اپنے دفاتر یہاں قائم کریں تو باصلاحیت نوجوانوں کو بہتر ملازمتیں میسر آسکتی ہیں۔
موجودہ بحرانوں کا تریاق سب کو معلوم ہے۔ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور اسے وسعت دینا، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو متحرک کرنا جوکہ جی ڈی پی کے 15 فیصد حصے سے بھی کم ہو چکی ہے اور توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا جو گردشی قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔
پاکستان کو خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری پر توجہ دینا ہو گی جن کی وجہ سے ہر سال 1 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا خسارہ جھیلنا پڑتا ہے۔ اصلاحات متعارف کروانے اور اس طرح کی فضول خرچیوں کو کم کرنے کے لیے ایک قومی پالیسی ایجنڈے کی ضرورت ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت ضروری ہے۔
بلوچستان میں اب تک تقریباََچالیس انتہائی قیمتی زیرزمین معدنیات کے ذخائر دریافت ہوچکے ہیں جو محتاط تخمینوں کے مطابق آیندہ پچاس سے سو سال تک ملک کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں اور بیرونی سرمایہ کاری کا بیش قیمت ذریعہ بھی ہیں۔ کچھ اہم معدنیات جو بلوچستان میں پائی جاتی ہیں۔
ان میں تیل،گیس، سونا،تانبا،یورینیئم، کولٹن، خام لوہا، کوئلہ، انٹی مونی، کرومائٹ، فلورائٹ‘ یاقوت، گندھک، گریفائٹ، چونے کاپتھر، کھریامٹی، میگنائٹ، سوپ اسٹون، فاسفیٹ، درمیکیولائٹ، جپسم، المونیم، پلاٹینم، سلیکاریت، سلفر، لیتھیئم وغیرہ شامل ہیں۔
دوسری جانب ساحل اور وسائل پر اختیار اور اس کا صوبے اور عوام کی ترقی و بہبود میں مصرف اہم مطالبہ ہے۔بلوچستان کی زیادہ تر آبادی خط ِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ آج بھی اپنی بے بسی پر روتا ہے کہ اس کے بچے تعلیم سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ دو وقت کی روٹی تک کو ترستے ہیں۔
بلوچستان انتہائی اہمیت کا حامل ہے، صوبے کی لائیو اسٹاک اور زراعت اتنی وسیع ہیں کہ اس کا کوئی ثانی نہیں۔ دنیا کی اعلیٰ کھجور بلوچستان کے علاقے کیچ میں پیداہوتی ہے،ہزاروں ٹن کھجور کی پیدا وار میں بلوچستان کا یہ جنوبی حصہ سرفہرست ہے۔فشریز کا بھی یہاں کی معیشت میں بڑا عمل دخل ہے۔
ایرانی سرحد نزدیک ہونے سے درآمد وبرآمد کی مد میں بھی کیچ مکران میں سرمایہ کاری کے بڑے بڑے مواقع موجود ہیں۔ بلوچستان اپنے منفرد جغرافیہ، معدنیات، گوادر، سی پیک، سرحدی گیٹ وے، طویل ساحلی پٹی، تجارتی حوالوں سے دوممالک کے بارڈرز سمیت سینٹرل ایشیائی ممالک اور یورپ تک رسائی کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔
ماضی میں یہاں ترقی نہ ہونے کے برابر رہی ہے، ماضی میں اقتدار کے ایوانوں نے بلوچستان کے حوالے سے بلند وبانگ دعوے تو کیے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس نکلے۔ حالانکہ بلوچستان وطن عزیز کا وہ خوبصورت ترین علاقہ ہے۔
جسے اللہ تعالیٰ نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔اس میں دورائے نہیں کہ بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے اور اس کے مسائل بے پناہ ہیں۔تاہم وفاق اور صوبائی حکومت مل کر دو حصوں پر مشتمل ایک پیکیج پر کام کررہے ہیں تاکہ بلوچستان کے ان پسماندہ علاقوں کو ملک کے دیگر علاقوں کے برابر لایا جاسکے اور یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی جاسکیں۔
پاکستان کوقدرت نے چاروں موسموں سے نوازا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسی فصل یا پھل ہو جو پاکستان میں پیدا نہ ہوتا ہو۔ زراعت پاکستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ بیجوں کے معیار اور فصلوں کی جدید طریقہ سے دیکھ بھال کرکے زرعی پیداوار میں اضافہ اور کثیر زرمبادلہ کمانے کے وسیع مواقع اور امکانات موجود ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ کسانوں کی مشکلات دور کرے اور ان کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ ہو ۔ اسی طرح یو اے ای کے رئیل اسٹیٹ اداروں کی کراچی کی تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری سے نا صرف پاکستان کی معیشت کو ترقی ملے گی بلکہ پاکستان کے شہریوں کو عالمی معیار کی رہائشی سہولتیں بھی میسر آئیں گی۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ اوور سیز پاکستانی 25 ارب ڈالرز سے بھی زیادہ کی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے ہرممکن سہولت اور تحفظ کی یقین دہانی کررہی ہے۔
پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اربنائزیشن کے رحجانات سے تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کا سازگار ماحول پیدا ہوا ہے، پاکستان میں 12 ملین سے زائدرہائشی یونٹس کی کمی ہے جو سرمایہ کاروں کے لیے ایک بہترین موقع ہے۔
پاکستان کو اللہ کریم نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، بس ایمانداری اور حب الوطنی ہوتو یہ ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے اور ہمارا آنے والا وقت تابناک ہوسکتا ہے۔