اسرائیلی مظالم کا سلسلہ جاری ہے، غزہ میں دو اسکولوں پر بمباری کے نتیجے میں مزید پچاس بے گناہ فلسطینی شہید ہوگئے، دوماہ ہوچکے ہیں، اب تک سولہ ہزار سے فلسطینی شہید ، جب کہ ہزاروں زخمی ہیں ،ان میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔
تاریخ کی بدترین دہشت گردی کے ہاتھوں غزہ اور مغربی کنارے پہ نہتے فلسطینی بچوں کی چیخیں اور عورتوں کی آہ وزاریاں سننے والا کوئی نہیں۔ جنگ کے عالمی قوانین اور جنیوا کنونشن طاق نسیاں ہوئے۔ دو ماہ سے جاری بمباری سے غزہ تباہ و برباد ہوچکا، اب اسپتال اور پناہ گاہیں بھی نشانہ پر ہیں۔
غزہ کو کئی سالوں سے مکمل طور پر اسرائیلی محاصرہ کا سامنا ہے، وہاں کے لوگ نہ تو آزادانہ طور پر نقل و حرکت کر سکتے ہیں،نہ کچھ برآمد کر سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ درآمد کر سکتے ہیں،دوسرے الفاظ میں غزہ ایک کھلی جیل کی مانند ہے وہاں کے لوگ کیا کر سکتے ہیں۔
جن کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کے لیے بھی وسائل نہیں ہیں؟ ان کے پاس باہر کی دُنیا تک رسائی نہیں ہے تو ایسے میں لوگ مایوسی کا شکار ہیں اور اس مایوسی کے عالم میں صرف حکام نہیں بلکہ انفرادی طور بھی لوگ ایسے اقدامات کر جاتے ہیں جو انھیں نہیں کرنے چاہئیںاور اس کا جواب بہت بھاری ہوتا ہے۔
سات اکتوبر سے شروع کیے گئے موجودہ آپریشن کے متعلق ہم تصور بھی نہیں کر سکتے جو پہلے صرف فضائی حملوں پر مبنی تھا مگر اب زمینی حملے بھی شروع کیے گئے ہیں۔
ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں فقط چند اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور شہید ہونے والے فلسطینیوں میں زیادہ تعداد عام شہریوں بالخصوص بچوں کی ہے-
اس وقت اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل پر پانچ مستقل ممبران کا غلبہ ہے اور یہ اُس وقت تک کوئی ایکشن نہیں لے سکتی جب تک پانچ مستقل ممبران اس پر تیار نہ ہوں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایکشن کے لیے امریکا، فرانس اور برطانیہ تیار نہیں ہیں۔
وہ زیادہ سے زیادہ سیز فائر کا کہہ دیتے ہیں، سیز فائر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر فقط سیز فائر کافی نہیں ہے اور اقوامِ متحدہ اسرائیل سے اپنے احکامات پر زبردستی عمل درآمد نہیں کروا سکتی جب تک امریکا، برطانیہ، فرانس، چین اور روس اس پر تیار نہ ہوں۔
دہشت گردی کی جو مثال اس وقت اسرائیل نے قائم کی ہے وہ تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، کئی اسپتالوں پر حملہ کرنا اور مریضوں سمیت کئی ڈاکٹرز کی جانیں لے لینا، یہ کون سا ڈیفنس ہے؟ اگر اسرائیل کو سیلف ڈیفنس کا حق ہے تو فلسطین کو کیوں نہیں؟عالمی برادری کا دہرا معیار دیکھیے کہ کئی دہائیوں سے جاری اسرائیلی بربریت کے جواب میں اسے حماس کا حملہ اور فلسطینیوں کا خود کا دفاع دہشت گردی لگنے لگا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جان چاہے مسلمانوں کی جائے یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی، مساوی طور پر تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔
اسرائیل نے غزہ پر ظلم کی انتہا کرتے ہوئے تمام انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا دیں، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ برطانیہ، یورپ اور امریکا جو خود کو انسانی حقوق کے تحفظ کے علمبردار مانتے ہیں، مسلسل اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
جس دوران اسرائیلی بمباری سے پوری کی پوری آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن رہی تھیں، اس دوران آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (او آئی سی) نے بیان جاری کیا جس میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ غیرمستحکم حالات کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے، لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم نے فلسطین کے حق میں اجتماعی اقدامات پر غور نہیں کیا۔
نہ ہی ان عرب ممالک نے جو گزشتہ سالوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرچکے ہیں، سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔
لگتا ہے کہ بعض ممالک اس انتظار میں ہیں کہ حماس کا یا تو پتہ صاف ہوجائے یا پھر اسرائیل پیچھے ہٹنے پہ مجبور ہوجائے، لیکن دوسری جانب عالمی رائے عامہ کا پلڑا مظلوم فلسطینیوں کے حق میں پلٹ گیا ہے اور دنیا بھر میں خاص طور پر مغرب میں جنگ بندی اور انسانی کمک کے لیے لاکھوں لوگ مظاہرے کررہے ہیں۔
اِسلامی دُنیا کو ہم دو حصوں میں دیکھ سکتے ہیں، ایک او آئی سی اور دوسرا اِسلامی ممالک کو انفرادی حیثیت میں، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ او آئی سی ایک موثر ادارہ نہیں ہے ،او آئی سی کا ایک اجلاس ہوا ہے جس میں اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی گئی ہے،انھوں نے اقوامِ متحدہ کو ایکشن لینے کے لیے کہا، مسلم دُنیا اور عالمی برادری پر زور دیا کہ غزہ کے لوگوں کو ریلیف پہنچایا جائے اور یہی کچھ او آئی سی کر سکتی ہے کیونکہ اس کے پاس نہ تو فوج ہے اور نہ ہی وسائل ہیں۔
جب تک او آئی سی کے ممبر ممالک اسے ایک موثر ادارہ نہیں بناتے، اس سے زیادہ اقدامات کی توقع نہیں کی جاسکتی اور اسے اپنے محدود اختیارات کو ہی استعمال کرنا ہے البتہ انفرادی طور پر مسلم ممالک کا کردار مایوس کن رہا ہے ،انھوں نے بے باک انداز میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر آواز نہیں اٹھائی ہے،اسرائیل کی جانب سے نہ صرف حماس بلکہ معصوم عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس مسئلے کا سب سے پرانا حل جو سلامتی کونسل نے پیش کیا وہ دو ریاستی حل تھا جس کے تحت فلسطین عملی اور خودمختار ریاست ہوگا، لیکن اسرائیل کو برسوں پہلے سے مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی خاص طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے دو ریاستی حل کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک ریاست کا ’حل‘ پیش کیا جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کرکے نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ اس آبادکاری کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی نظرانداز کردیا گیا۔
سوچنے کی بات ہے کہ ان حالات میں فلسطینی بے چارے کس کی طرف دیکھیں؟ یہ بات دہرانی پڑتی ہے کہ دنیا میںستاون مسلمان ممالک ہیں۔
ان ممالک میں ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان بستے ہیں۔ بیشتر ممالک تیل اور دیگر معدنیات کی دولت سے مالا مال ہیں، لیکن ان کی ضعیفی اور بے بسی دیکھیں کہ یہ فلسطین کو اسرائیل کی بربریت سے بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف اسرائیل ہے جو تقریباً نوے لاکھ آبادی کا حامل ملک ہے، یہ مسلمان ممالک میں گھرا ہوا ہے۔ لیکن مٹھی بھر آبادی کا حامل اسرائیل دنیا میں اپنی دھاک رکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا میں اقوام عالم میں اپنی دھاک بٹھانے اور بات منوانے کا صرف ایک پیمانہ ہے۔ یہ پیمانہ مضبوط معیشت ہے۔ امریکا کا شمار دنیا کی طاقت ور معیشتوں میں ہوتا ہے، تاہم امریکی معیشت یہودیوں کے قبضے میں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے۔ بیشتر مسلمان ممالک امریکا، آئی ایم ایف وغیرہ پر انحصار کرتے ہیں۔ ان حالات میں یہ ممالک کس طرح امریکا یا اسرائیل سے اپنی بات منوا سکتے ہیں؟
ان قراردادوں پر عمل نہ کرکے عالمی قوتوں نے خود پر سوالات کھڑے کردیے ہیں کیونکہ یہ قوتیں حالات بدلنے کا اختیار رکھتی ہیں لیکن وہ اسرائیل کی غیرمشروط حمایت میں اس قدر اندھی ہوچکی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے کے برعکس عمل کر رہی ہیں۔اِن حالات میں یقیناً سب سے پہلے سیز فائر ہونا چاہیے۔
یہ کہنا بہت آسان ہے مگر سیز فائر کا مطلب یہ ہے کہ صورتحال جہاں ہے وہیں جام ہو جائے گی اور فلسطینیوں پر روزمرہ کے مظالم جاری رہیں گے اور اُن کی مشکلات حل نہیں ہوں گی جن کی وجہ سے وہ اسرائیل کے خلاف جدوجہدکرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ حماس کا یہ موقف ہے کہ وہ جنگ بندی پر تب ہی تیار ہوں گے جب اُن کے قیدیوں کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے اور وہاں کے لوگوں کو باہر کی دُنیا سے آزادانہ تعلقات قائم کرنے دیے جائیں اور فلسطین کے اندر بھی آزادی سے آمدو رفت کی اجازت ہو، انھیں مسجدِ اقصیٰ میں جانے اور نماز ادا کرنے کی اجازت ہو، یہ وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی بنا پر وہ سیز فائر پر رضامند نہیں ہو رہے لیکن ہر شخص چاہتا ہے کہ سیز فائر ہو، ہم دعاگو ہیں کہ غزہ کا محاصرہ ختم ہو جائے اور پھر سیز فائر کا معاہدہ بھی طے پا جائے ۔
اقوام عالم پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسرائیل کے انسانیت کے خلاف جاری مظالم رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے، فلسطینیوں کو جینے کا حق اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق دیا جائے ، یہی وقت کا تقاضا اور ضرورت ہے۔