اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو سینئر وکیل لطیف کھوسہ اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی لیک ہونے والی آڈیو کی فارنزک کا حکم دے دیا۔
لطیف کھوسہ اور بشریٰ بی بی کی آڈیو لیک سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ تحقیقات کی جائیں کہ سب سے پہلے آڈیو کہاں سے جاری ہوئی۔
جسٹس بابر ستار نے کہا پیمرا بتائے لوگوں کی نجی گفتگو کیسے ٹی وی چینلز پر نشر ہو رہی ہے؟
جسٹس بابرستار نے درخواست پر عائد اعتراضات ختم کرتے ہوئے استفسار کیا درخواست پر رجسٹرار آفس کا کیا اعتراض ہے؟
لطیف کھوسہ نے بتایا اعتراض ہےکہ الگ درخواست دائر کریں، متفرق درخواست کیسےکر سکتے ہیں؟ آڈیو لیکس کیس میں متفرق درخواست دائر ہو سکتی ہے، وکیل اور مؤکل کے درمیان گفتگو پر استحقاق ہوتا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے بگ باس سب سن رہا ہوتا ہے آپ کو تو پتہ ہونا چاہیے، جسٹس بابر ستار کی بات پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
جسٹس بابرستار نے پوچھا آڈیو کون ریکارڈ کر رہا ہے؟ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا سب کو پتہ ہے کون ریکارڈ کرتا ہے، جسٹس بابر ستار نے کہا مفروضے پر تو نہیں چل سکتے۔
لطیف کھوسہ نے کہا یہ میرا نہیں پورے ملک کے وکلا کا مسئلہ ہے، وکیل موکل سے آزادی سے بات نہ کر سکے تو نظام انصاف کیسے چلے گا؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہا آڈیو سوشل میڈیا پر آئی ہے؟ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا آڈیو تمام ٹی وی چینلز نے بھی نشر کی، جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا سب سے پہلے ٹوئٹر (ایکس) پر آئی یا کہیں اور؟ یہ معلوم ہو جائے ریلیز کہاں ہوئی ہے تو پتہ چل سکتا ہے ریکارڈ کس نے کی؟
لطیف کھوسہ نے کہا پیمرا ویسے تو کسی کا نام لینے پر بھی اسکرین بند کر دیتا ہے، مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا کہ آپ کا فون ہی محفوظ نہیں۔
جسٹس بابر ستار نے درخواست کی کاپی ڈی جی آئی ایس آئی کو بھجوانےکا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی بھی رپورٹ دیں کہ آڈیو کس نے ریلیز کی۔
عدالت نے بشریٰ بی بی اور لطیف کھوسہ کی آڈیو لیک کے معاملے پر ایف آئی اے، پیمرا اور پی ٹی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا اور کیس کی مزید سماعت 11 دسمبر تک ملتوی کر دی۔