کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہوائے تازہ کا خوش گوار جھونکا لوگوں کے پاس سے گزرتا ہے، لوگ وقتی طور پرچونک جاتے ہیں، مگر گھٹن کا عالم یوں ہی رہتا ہے۔
شہرِ نابینا میں رہنے والے لوگ اپنے آنگن میں اترنے والے مہتاب سے بے خبر رہتے ہیں۔ محصور لوگوں کو فصیلوں کے پار سے پکارا جاتا ہے، مگر ان کے درِ مقفّل میں کوئی جنبش نہیں ہوتی۔
روپہلی کرنیں کنارِ مژگاں کو چْھو کر واپس لوٹ جاتی ہیں، مگر بصارتوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان تمام جملہ ہائے معترضہ کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اندر کے اضطراب سے لوگوں کو آگاہی ہو جائے۔ ان کا تعلق اصل موضوع سے نہیں ہے۔ اصل موضوع ایک خاص دن کے بارے میں ہے۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 47/3 کی روشنی میں 3 دسمبر 1992ء کو ایک خاص دن منانے کا آغاز ہوا۔ یہ دن معذوروں سے منسوب کیا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ تھا کہ معذوروں کے مسائل حل کیے جائیں اور انہیں معاشرے میں باعزت مقام فراہم کیا جائے۔
پچھلے تیس سالوں سے اس دن کو منانے کے سلسلہ جاری ہے۔ یہ سوال بار بار سر اٹھاتا ہے کہ کیا اس دن کو منانے سے معذوروں کی دنیا میں کوئی حقیقی یا بڑی تبدیلی آ گئی ہے؟
پس ماندہ مْمالک کے تناظر میں دیکھا جائے، تو اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ یہ دِن ہوا کے ایک خوش گوار جھونکے کی طرح گزر جاتا ہے، مگر ماحول کے تعفّن اور گھٹن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہ تعفّن زدہ ماحول اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتا، جب تک لوگوں کی سوچ تبدیلی نہیں آتی اور تعفن کی حقیقی وجوہات کودور نہیں کیا جاتا۔
بات کو آگے بڑھانے سے پیشتر ہمیں علم ہونا چاہیے کہ معذوری ہوتی کیا ہے؟ عام فہم انداز میں اگر بیان کیا جائے، تو معذوری سے مْراد وہ جسمانی و ذہنی کیفیت ہے، جو ایک شخص کی سرگرمیوں، حواس اور حرکات کو محدود کر دیتی ہے۔ معذوری کی وجہ سے ایک شخص کا سماجی رابطہ یا Interaction Social کم زور پڑ جاتا ہے اور ایسا شخص معاشرے میں اپنا بَھرپور کردار ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ معذوری پیدائشی بھی ہوسکتی ہے اور کسی حادثے یا بیماری کی وجہ سے بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
عالمی بینک کے مطابق دْنیا کے 15فی صد لوگ کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں اور انہیں سماجی اعتبار سے اپنا بَھرپور کردار ادا کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ معذور افراد سے متعلق اعداد و شمار اکٹھے کرنے والے ایک ادارے کی تازہ ترین رپورٹ (سال 2022ئ) کے مطابق دْنیا کے 65 کروڑ افراد کسی نہ کسی معذوری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ معذوری کے حوالے سے پاکستان کے اعداد وشمار یقینی قرار نہیں دیے جاسکتے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے UNDP کے مطابق پاکستان کے 6.2 فی صد افراد معذوری کا شکار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کے سوا کروڑ افراد معذوری کا سامنا کر رہے ہیں۔ دوسرے اداروں کے مطابق حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہے اور بات ڈھائی کروڑ تک بھی جا سکتی ہے۔
یہ سوال بڑا اہم ہے کہ لوگ کس قسم کی معذوری میں مبتلا ہیں؟ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ساٹھ سال سے کم عْمر لوگوں میں یاسیت یا ڈیپریشن کی بیماری سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس کے بعد سماعت اور بصارت کے مسائل ہیں۔ معذوروں کی دنیا کا جو منظرنامہ ہمارے سامنے آتا ہے، وہ بڑا تکلیف دہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں معذوروں کا مذاق اْڑایا جاتا ہے اور انہیں طنزو تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ہمارا عمومی رویّہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو ان کی معذوری کی بنیاد پر کوئی نام دے دیا جائے اور پھر اسی نام سے انہیں پکارا جائے مثلاً کبڑا، اندھا، کانا، بھینگا، لنگڑا اور گونگا وغیرہ۔ ہم ایک مسلمان ملک سے تعلق رکھتے ہیں اور اسلام میں اس قسم کے رویے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ قرآنِ پاک میں بلاتفریق کسی بھی انسان کا مذاق اْڑانے سے منع کیا گیا ہے اور بْرے القاب رکھنے کی مذمت کی گئی ہے۔ ’’آپس میں ایک دوسرے پرطعن نہ کرو اور ایک دوسرے کو بْرے القاب سے یاد نہ کرو۔‘‘ (سورۃ الحجرات ،11)
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نبی کریم ﷺ کے لیے مسواک توڑنے کے لیے درخت پر چڑھے۔ اس موقعے پر لوگوں نے اْن کی پتلی ٹانگیں دیکھ کر اْنہیں مذاق اور تحقیر کا نشانہ بنایا۔
نبی کریم ﷺ نے لوگوں کے اِس رویّے کو ناپسند فرمایا اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی ٹانگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’یہ میزانِ عمل میں اْحد پہاڑ سے بھی زیاد ہ وزن کی حامل ہوں گی۔‘‘ ہمارا دین ہر معذور کے ساتھ عزّت، وقار اور تکریم کا رویّہ اپنانے کی ہدایت کرتا ہے۔
معذور افراد ہماری خصوصی توجّہ کے حق دار ہوتے ہیں۔ ہمیں اْن کی صلاحیتوں کی قدر کرنی چاہیے، اور تربیت کے حوالے سے خصوصی توجّہ دینی چاہیے۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ مکّہ کے سرداروں اور دیگر بااثر افراد کے سامنے دین کی دعوت پیش کر رہے تھے۔
اْس موقعے پر نابینا صحابی حضرت عبداللہ ابن مکتوم ؓ محفل میں آئے اور آپ ﷺ سے کوئی سوال پوچھنا چاہا، تو حضورِ پاک ﷺ کو حضرت عبداللہ ابن مکتوم ؓ کی مداخلت ناگوار گزری اور آپ ﷺ نے منہ پھیر لیا۔
نبی اکرم ﷺ کا یہ رویہ طنز و تحقیر پر مبنی نہیں تھا بلکہ آپﷺ نیک نیتّی سے یہ سمجھتے تھے کہ اگر مکّہ کے بااثر لوگ اسلام قبول کرلیں، تو اس سے دعوت کو فروغ ملے گا۔ دوسری طرف حضرت عبداللہ ابن مکتوم ؓ، اْمّ المومنین حضرت خدیجہؓ کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور گھر کا فرد ہونے کی حیثیت سے وہ کسی اور وقت دین کا علم حاصل کر سکتے تھے۔
سورہ عبس میں اللہ تعالیٰ نے پیار بَھرے انداز میں نبی کریم ﷺ کو ہدایت فرمائی کہ آپ ﷺ کی دعوت کے اوّلین مخاطب وہ لوگ ہیں، جو مخلص ہیں اور واقعتاً دین کا فہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس بنیاد پر نابینا صحابی حضرت عبداللہ ابن مکتوم ؓ ترجیح کے حق دار ہیں۔ اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ اصل اہمیت انسان کے جذبے اور جستجو کی ہوتی ہے، خواہ وہ معذور ہی کیوں نہ ہو۔ اِس لحاظ سے معذور افراد ہماری خصوصی توجّہ کے مستحق ہوتے ہیں۔
معاشرے کے تمام افراد اور اداروں کی اخلاقی و دینی ذمّہ داری ہے کہ معذور افراد کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ نابینا افراد کے لیے چھڑی اور سہارے کا انتظام کرنا، دیگر معذوروں کے لیے بیساکھی یا وہیل چیئر کی فراہمی ، اگر ممکن ہو تو مصنوعی اعضاء لگوانے کا اہتمام کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ سب کام کر کے ہم کسی معذور پر احسان نہیں کرتے بلکہ اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔
ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ معذور افراد کی سرپرستی کرے، ان کی ضروریات کا خیال رکھے، مناسب ذریعہ روزگار انہیں فراہم کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی محفل میں ایک شخص کو بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے دیکھتا تو اسے ٹوکا۔ بار بار ٹوکنے کے باوجود اس نے بائیں ہاتھ سے کھانا کھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔
حضرت عمرؓ کے استفسار پر اس شخص نے بتایا کہ ایک جنگ میں وہ اپنے دائیں ہاتھ سے محروم ہو گیا تھا۔ اس لیے بائیں ہاتھ سے کھانا اس کی مجبوری ہے۔ حضرت عمرؓ یہ جان کر آبدیدہ ہو گئے اور فوری طور پر اس شخص کے لیے ملازم، سواری اور زندگی کی دیگر ضروریات کا انتظام کیا۔ یہی روش ہمارے عہد کی حکومتوں کو اپنانا ہو گی۔
معذوروں کے مسائل اورمشکلات اپنی جگہ، مگر انہیں اپنی معذوری کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئیں۔ ہمّت، حوصلے اور عزم کے ساتھ زندگی کا سفر جاری رکھنا چاہیے۔ معذوری کو زندگی و موت کا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی جبرِناروا قرار دینا چاہیے۔ معذوری خدا کا عذاب نہیں، بلکہ امتحان ہے اور اس امتحان میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں، جو صبرو شْکر کے مفہوم سے واقف ہوتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جب کسی نعمت سے محروم ہو جائیں تو صبرواستقامت سے کام لیتے ہیں اور جب کوئی نعمت انہیں عطا کی جائے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ قدرت کچھ لے کر یا دے کر دونوں طرح سے آزماتی ہے۔ خدا نے زندگی اور موت کو تخلیق ہی اس لیے کیا ہے کہ لوگوں کا امتحان لیا جاسکے۔ زندگی وہ دورانیہ ہے جس میں امتحان لیا جاتا ہے اور موت اس امتحان کے ختم ہونے کا اعلان ہے۔
حقیقی معذور وہ نہیں ہوتا جو کسی عضو سے محروم ہو بلکہ وہ شخص حقیقی معذور ہوتا ہے، جو اپنے اعضاء کا صحیح استعمال نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآنِ حکیم ایک زندہ جاوید حقیقت بیان کرتا ہے۔ ’’ان کے پاس دِل ہیں، مگر وہ اْن سے سوچتے نہیں ہیں۔ اْن کے پاس آنکھیں ہیں، مگر وہ اْن سے دیکھتے نہیں ہیں۔ اْن کے پاس کان ہیں، مگر وہ اْن سے سْنتے نہیں ہیں۔
وہ جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اْن سے زیادہ گئے گزرے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو غفلت میں کھو گئے ہیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف، 179)۔ اس حقیقی معذوری کا تذکرہ اردو کے معروف شاعر اقبال عظیم کے ہاں بھی ملتا ہے۔ وہ زندگی کے آخری دَور میں نابینا ہوگئے تھے۔ اِسی دَور میں انہوں نے وہ خْوب صْورت شعر کہا، جس میں انہوں نے اپنی بے نگاہی کی بات کی ہے مگر ساتھ ہی اْن لوگوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو دیدہ وَر کہلاتے ہیں مگر دیکھنے کی حقیقی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔
مجھے ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا
جو دیدہ وَر ہیں، اْنہیں بھی نظر نہیں آتا
یہ شعر قرآن کی اس آیت کی ترجمانی کرتا ہے، جو سورہ الحج میں شامل ہے، ’’حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، مگر وہ دِل اندھے ہو جاتے ہیں، جو سینوں میں ہیں۔‘‘ (سورۃالحج، 46)
یہ مضمون ان لوگوں کے تذکرے کے بغیر ادھورا رہے گا جو عزم اور ہمت کا پہاڑ تھے۔ جنہوں نے اپنی معذوری کو راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا اور وہ کچھ کرکے دکھایا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہم نے صرف چند لوگوں کا انتخاب کیا ہے جو حالیہ زمانے یا ماضی قریب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے نظریات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں مگر ان کے حوصلے کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔
ہیلن کیلر: امریکی خاتون تھیں جو 1880ء میں پیدا ہوئیں اور 1968ء میں فوت ہو گئیں۔ ڈیڑھ سال کی عْمر میں سماعت اور بصارت سے محروم ہوگئی تھیں۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور معذوروں کے حقوق کے لیے کام کیا۔ عظیم مصنّفہ تھیں۔ ان کی کتاب ’’میری زندگی کی کہانی‘‘ انگریزی کی بہترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔
فرینکلن ڈی روزویلٹ (1882ئ-1945ئ): روزویلٹ پولیو کی وجہ سے معذور ہوگئے۔ اسی معذوری کے ساتھ 1933ء سے اپنی وفات تک امریکا کے صدر رہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں اپنے مْلک کی کامیابی سے قیادت کی۔
اسٹیفن ہاکنگ (1942ء -2018ئ): ان کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ ایک اعصابی بیماری کی وجہ سے چلنے پِھرنے کے قابل نہیں تھے، اور قوتِ گویائی سے بھی محروم تھے۔ گردن سے نیچے جسم حرکت نہیں کر سکتا تھا۔ فزکس کے مضمون کے ماہر تھے۔ تحقیق کی دنیا کے عظیم لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
شیخ احمد یاسین (1937ء -2004ء ): ان کا تعلق فلسطین سے تھا۔ 16سال کی عْمر میں حادثے کا شکار ہوئے اور ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی۔ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے۔ پوری عمر وہیل چیئر پر گزری۔ عظیم عالمِ دین تھے۔ فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے بانی تھے۔ اسرائیل کے فضائی حملے میں شہید ہوئے۔
جان نیش (1928ء – 2015ء ): امریکا سے تعلق تھا۔ عالمی شہرت یافتہ ریاضی دان تھے۔ نفسیاتی مرض شیزوفرینیا میں مبتلا تھے۔ پوری عمر اس مرض سے لڑتے ہوئے گزاری۔ 1994ء میں نوبل پرائز کے حق دار قرار پائے۔
محمّد علی (1942ء -2016ء ): امریکہ سے تعلق تھا اور دنیا کی تاریخ کے عظیم باکسر تھے۔ بچپن سے Dyslexiaنامی مرض میں مبتلا تھے۔ اس مرض میں الفاظ کو پہچاننے اور پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ آخری عْمر میں رعشے کی بیماری کا شکار ہوگئے، مگر سماجی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
فریڈا کاہلو ( 1907ئ-1954ئ): اس خاتون کا تعلق میکسیکو سے تھا۔ چھے برس کی عْمر میں پولیو کے مرض کا سامنا کرنا پڑا۔ دْنیا کے عظیم مصوّروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
شیخ عْمر عبدالرحمٰن (1938ء -2017ء ): شیخ عْمر کا تعلق مصر سے تھا۔ عظیم عالم دین مگر نابینا تھے۔ جامعہ الازہر سے تعلیم حاصل کی۔ امریکا میں انہیں شدت پسندی جہادی قراردے کر عْمر قید کی سزا سنادی گئی۔ نارتھ کیرولینا (امریکا) میں انتقال ہوا۔
لوئیس کیرول (1832ء -1898ء ): ان کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ وہ ایک اعصابی بیماری آٹزم میں مبتلا تھے۔ اس بیماری کی وجہ سے بولنے کی صلاحیت شدید متاثر ہوئی۔ ایک کان بھی قوّتِ سماعت سے محروم تھا۔ عالمی شہرت یافتہ مصنّف تھے۔ بچّوں کی معروف کتاب “Alice in wonderland” انہی کے قلم کا شہ پارہ ہے۔
لوئیس بریل (1809ء -1852ئ): ان کا تعلق فرانس سے تھا۔ بینائی سے محروم تھے۔ انہوں نے نابینا افراد کی تعلیم کے لیے ایک خاص نظام متعارف کرایا، جو لکھنے پڑھنے کے لیے آج بھی استعمال ہوتا ہے اور انہی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
یہ فہرست اور بھی طویل ہو سکتی تھی مگر ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ سارے لوگ عزم و ہمّت کا پیکر تھے۔ ان کی زندگی سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ آج بھی پکار پکار کر ہمارے احساس اور ضمیر کو بیدارکرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں اْٹھنا ہوگا اور ایسی دْنیا کی طرف قدم بڑھانے ہوں گے، جہاں سب برابر ہوں، سب کو یکساں مواقع میسّر ہوں اور ذہنی و جسمانی نقص کی بنیاد پر کسی کی تذلیل اور تحقیر نہ کی جاتی ہو۔