ہائیکورٹ میں زیر حراست لوگوں کے انٹرویوز کرنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔
عدالت نے میڈیا کو زیر حراست ملزمان کا انٹرویو کرنے سے روک دیا اور صحافیوں پر شہریوں کی گاڑی روک کر ان سے شناختی کارڈ وغیرہ مانگنے پر بھی پابندی لگادی۔
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ یہ سلسلہ کہانی جرم و سزا سے شروع ہوا، پھر ہر چینل پر یہ مواد شروع ہو گیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کوئی میڈیا کا بندہ ملزم سے اعتراف کروا سکتا ہے ؟ کیا ایک ملزم کی اجازت کے بغیر اس کا انٹریو کیا جا سکتا ہے ؟ کیا پولیس یہ اجازت دے سکتی ہے؟
سرکاری وکیل نے نفی میں جواب دیا۔
عدالت نے ڈی آئی جی انوسٹیگیشن سے استفسار کیا کہ پراسیکیوشن کا عمل انتہائی حساس اور نجی ہے، جو ٹریفک والوں کے ساتھ کھڑے ہو کر، منہ میں مائیک گھسا کر انٹرویو کیے جاتے ہیں، بند ہونے چاہئیں۔
عدالت میں زیر حراست لوگوں کے انٹرویو بھی دکھائے گئے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کوئی صحافی کسی کو زبردستی بات کرنے پر کیسے مجبور کر سکتا ہے؟ جیسے بات کرنے کی آزادی ہے ویسے ہی خاموش رہنے کی بھی آزادی ہے، ایک ریگولیٹری اتھارٹی ہونی چاہیے، ہر شخص جو کیمرہ اور مائیک لے کر چل پڑے اسے صحافی نہیں کہا جا سکتا، اگر ایک صحافی آپ کے پاس آتا اور کوئی سوال کرتا ہے تو آپ جواب نہیں دیتے تو بات ختم ہو جانی چاہیے۔
جج نے کہا کہ میں آرڈر پاس کر رہا ہوں کہ میڈیا زیر حراست لوگوں کا انٹرویو نہیں کر سکتا، میڈیا والے کسی گاڑی والے جا کر آئی ڈی کارڈ نہیں مانگ سکتے، کسی تصویر یا ویڈیو کا اپلوڈ کرنا ہی نہیں کھینچنا بھی اجازت سے مشروط ہے، یوٹیوب چینلز کو کیسے روکا جائے ؟ اگر انٹرنیٹ پر ایسی چیزوں کو روکنا ہے تو ہمارے پاس ایف آئی اے ہی ایک ذریعہ ہے۔
وکلا نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس اختیار ہے کہ کسی قابل اعتراض مواد کو روکے، وہ پولیس افسران جو ایسے انٹرویو کی اجازت دے رہے ہیں قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
عدالت نے اگلی سماعت پر پیمرا کے سینئر افسران کو طلب کرتے ہوئے تفصیلی رپورٹ جمع کروانے ہدایت کی۔