ماہرین کا کہنا ہے زہروں اور کھادوں کے خطرناک کیمیکل ناصرف جنگلی حیات کی اموات کا سبب بن رہے ہیں بلکہ ان کی تولیدی صلاحیت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
جنگلی حیات کو بچانے کے لئے انٹیگریٹڈ پیسٹ مینجمنٹ اور نامیاتی کھادوں کا استعمال کرنا ہوگا۔ 1965 میں کیے گئے ایک سروے میں لاہور اور اس کے مضافات میں 240 اقسام کے پرندے دیکھے گئے تھے تاہم اب یہ 74 اقسام رہ گئی ہیں۔
کاشتکارفصلوں اورباغات سے زیادہ اور بہتر پیداوار کے لئے مختلف زہروں اور کیمیائی کھادوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس طریقے سے پیداوار میں تو اضافہ ہور ہا ہے لیکن کھیتوں اور باغات میں چہچہانے والے پرندے، کئی ماحول دوست کیڑے،مکوڑے ،پتنگے اور جانور ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
میاں عبدالرؤف لاہور کے سرحدی علاقہ منہالہ کے رہائشی اور زمیندار ہیں۔ ان کا کہنا ہے فصلوں کو مختلف بیماریوں سے بچانے اورزمین سے زیادہ پیداوار کے لئے زہروں اور کیمیائی کھادوں کا استعمال مجبوری بن چکا ہے۔ ان کے اجداد کھیتوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لئے جانوروں کا فضلہ اورکوڑا نطور کھاد استعمال کرتے تھے لیکن جب مارکیٹ میں مختلف زرعی ادویات اورکیمیائی کھادیں آئی تو کاشتکاروں نے ان کا استعمال شروع کردیا۔
لاہوراوراس کے گرد ونواح میں پائے جانیوالے پرندوں کی اقسام جاننے کے لئے 1965 میں کئے گئے ۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ زولوجی کے ایک جائزے میں پرندوں کی 140 اقسام دیکھی گئی تھیں جبکہ 1992 کے سروے میں 101 کے پرندے دیکھے گئے۔
اسی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کے زیراہتمام 1997 میں کئے گیے سروے میں 74 اقسام کے پرندے دیکھے گئے ۔ اس جائزے میں 44 پرندے مقامی اور 30 مہاجر تھے۔ مہاجر پرندوں میں 17 سردیوں اور 13 گرمیوں کے موسم میں یہاں آتے تھے۔ ان میں کامن چڑیا، سنہری چڑیا، کوئل، سرخ پشت والی بلبل، راطوطے، کاٹھے طوطے، ممولے، کالاتیتر، بھوراتیتر، بٹیرے، ہدہد، ہڑیل، مینا، سفید گالوں والی بلبل، رام چڑا، ماہی خور، فاختہ، لالیاں، نیل کنٹھ، چیل، کوے، بجڑا، الو، شارک، کبوتر اور چمگادڑیں قابل ذکر ہیں۔
ماہرین کے مطابق ان پرندوں کی معدومی کی بڑی وجوہات میں سے ایک فصلوں اورباغات پرکئے جانیوالے زہروں کاسپرے اورکیمیائی کھادوں کا استعمال ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی کہتے ہیں کیمیائی زہروں میں بھیگے ہوئے بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات درحقیقت پرندوں اور جنگلی حیات کے لیے اہم خطرات کا باعث ہیں۔ کھادوں اور کیڑے مار ادویات میں استعمال ہونے والے کیمیکل اکثر زہریلے ہوتے ہیں۔ پرندے اور جنگلی حیات ان مادوں کو براہ راست یا بالواسطہ طور پر آلودہ خوراک یا پانی کے ذرائع سے کھاتے ہیں۔
ان زہروں اورکیمیائی کھادوں سے کیڑے،مکوڑے اوردیگرحشرات تو فورا ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ کچھ کیڑے مار ادویات میں اینڈوکرائن میں خلل ڈالنے والے کیمیکل ہوتے ہیں جو ناصرف پرندوں کی تولیدی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں بلکہ ان کی موت کی سبب بھی بنتے ہیں۔
پروفیسرڈاکٹرذوالفقار علی نے یہ بھی بتایا کہ زراعت میں استعمال ہونے والے کیمیکلز فوڈ چین کے ذریعے جنگلی حیات کو متاثر کرتے ہیں۔ پرندے اور جنگلی حیات ان زہروں اورکیمیاتی کھادوں سے متاثر کیڑے مکوڑے یا پودے کھاتے ہیں اورپھر ان پرندوں کو حشرات کو دیگرجانورکھاتے ہیں تو یہ زہریلے مادے ان میں منتقل ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح زرعی علاقوں سے نکلنے والا پانی کیڑے مار ادویات اور کھادوں کو قریبی آبی ذخائر میں لے جا سکتا ہے، جس سے آبی ماحولیاتی نظام آلودہ ہو سکتا ہے.
یہ مچھلی اور دیگر آبی حیات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فصلوں اورباغات میں زہروں اورکیمیائی کھادوں کا استعمال ہمارے ماحولیاتی نظام کو متاثر کررہا ہے۔
ڈاکٹرذوالفقار علی کے نزدیک ان خطرات کو کم کرنے اور ماحول دوست طریقوں کو فروغ دینے کے لیے، کسانوں اور باغبانوں کے لیے کیڑوں پر قابو پانے اور فرٹیلائزیشن کے متبادل، پائیدار طریقوں پر غور کرنا ضروری ہے. انٹیگریٹڈ پیسٹ مینجمنٹ، نامیاتی کاشتکاری کے طریقے، اور غیر زہریلی کھادوں کا استعمال کرنا ہوگا۔
محکمہ زراعت پنجاب کے ڈائریکٹرجنرل (توسیع ) ڈاکٹر انجم علی بٹر نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا پاکستان میں استعمال ہونیوالے زرعی ادویات 100 فیصد امپورٹ کی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں ایسی زرعی ادویات جن کے استعمال سے پودوں ، پرندوں ،جانوروں اورماحول کو نقصان پہنچتا ہے ان پرپابندی ہے۔اس لئے ایسی زرعی ادویات کو امپورٹ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا نقصان اس وقت ہوتا ہے جب ان زرعی ادویات اورکیمیائی کھادوں کا بے دریغ اوربلاضروت استعمال کیا جاتاہے۔
ڈاکٹرانجم علی بٹر کہتے ہیں پاکستان کے لئے اس وقت خوراک کی پیداوار میں بڑا مسلہ کوالٹی نہیں بلکہ مقدار ہے۔ اس لئے زیادہ سے زیادہ پیداوار کے حصول کے لئے ناصرف پاکستان بلکہ ان تمام ممالک میں زرعی ادویات اورکیمیائی کھادیں استعما ل کی جاتی ہیں جن ملکوں کی جی ڈی پی کا انحصار زرعی پیداوار کی ایکسپورٹ پر ہے۔
انہوں نے کہا فصلوں سے نقصان دہ جڑی بوٹیوں اور کیڑوں کی تلفی کے چار طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ کہ ہاتھوں سے جڑی بوٹیوں کو اکھاڑ کر تلف کردیا جائے، دوسرا طریقہ گوڈی کا ہے ،تیسرا طریقہ دوست کیڑوں کی مدد سے خطرناک کیڑوں کا خاتمہ اورسب سے آخری آپشن زرعی ادویات اورکیمیائی کھادیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کھادوں اورزہروں کا استعمال انتہائی ذمہ داری کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔محکمہ زراعت اس بارے کاشتکاروں کی رہنمائی کرتا ہے اور لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے۔
پنجاب وائلڈلائف کے فوکل پرسن مدثر حسن نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ مرکزی سطح پرتوکبھی کبھی اس حوالے سے کوئی مہم چلائی گئی اور نہ ہی کاشتکاروں اورمحکمہ زراعت سے کوئی رابطہ کیا جاتا ہے کہ وہ فصلوں اورباغات میں ایسے زہروں کا سپرے اورکیمیائی کھادیں استعمال نہ کریں جن سے پرندوں اوردیگر جنگلی حیات کو نقصان پہنچ سکتا ہے البتہ وائلڈلائف کے تمام ڈویژن ڈپٹی ڈائریکٹرز اپنے ایریاز میں آگاہی مہم چلاتے ہیں اورکاشتکاروں کو زرعی ادویات اورکیمیائی کھادوں کے استعمال کے مضراثرات سے آگاہ کرتے ہیں