شعور نہ صرف انسان اور دیگر جانداروں کے مابین امتیاز کرتا ہے بلکہ مدارج شعور ہی مختلف اقوام کی ترقی اور ان اقوام کے متمدن ہونے کا معیار ہے۔ اس شعور کا ایک ذریعہ تعلیم بھی ہے۔
تعلیم کے فی الاصل دو بنیادی مقاصد ہیں۔ تعلیم کا مقصد اول بیداری شعور ہے۔ اس شعور کا اظہار انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی سے متعلق تمام معاملات مثلاً اس کے رہن و سہن، سلام و کلام، لین دین وغیرہ میں ہوتا ہے اور یہی فی الاصل، تعلیم یا اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شعور کی صحیح سند ہے۔
دوم چونکہ نظم کائنات انسان کی فطری ذمےداری ہے، لہٰذا تعلیم کا دوسرا بنیادی مقصد انسان کو اس ذمے داری کےلیے تیار کرنا ہے جو فطرت نے اس پر عائد کی ہے۔
جب کسی معاشرے میں تعلیم کو عملی طور پر بحیثیت نظام رائج کیا جاتا یے تو اس کےلیے ایک نصاب کی احتیاج ہوتی ہے۔ ترتیب نصاب کے دوران مختلف امور کو پیش نظر رکھا جاتا ہے تاکہ ایک مکمل و جامع نصاب تیار کیا جاسکے۔
نصاب کی ترتیب کے وقت اول یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں کون کون سے علوم رائج ہیں، مستقبل میں کون کون سے علوم کا غلبہ ہوگا۔ اور اس کے ساتھ اس معاشرے کی ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا جاتا، یعنی وہ کون سا مضمون یا شعبہ ہے جو معاشرے کی فطری ضرورت ہے یا وہ کون سا شعبہ و مضمون ہے جو کسی وجہ سے عدم توجہی کا شکار ہے۔
نتیجتاً ان تمام علوم یا مضامین پر مشتمل ایک جامع نصاب تیار کیا جاتا ہے اور پھر ان مضامین یا علوم کو طلبا کی ذہنی عمر کے اعتبار سے مختلف مدارج میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ابتدائی جماعتوں میں ان تمام مضامین کے عبوری تعارف کو شامل نصاب کیا جاتا ہے تاکہ معاشرے کا ہر بچہ ان تمام علوم کی ابجد سے واقف ہوجائے اور ان علوم یا مضامین کا عمومی و عبوری تعارف حاصل کرلے۔ اگلی جماعتوں میں انہی علوم و مضامین کو بااعتبار ذہنی عمر وسعت دی جاتی ہے۔ اس عمل سے ہر بچہ ان تمام لازمی مضامین یا علوم سے واقف ہوتا ہے اور اعلیٰ تعلیم کےلیے اپنے طبعی رجحانات و پسند کی بنیاد پر ایک مضمون یا علم کی ایک مخصوص شاخ کے انتخاب کا شعوری فیصلہ کرتا ہے۔
یہ شعوری فیصلہ ہی انسان کو کسی خاص شعبہ حیات میں مزید اعلیٰ تعلیم اور تحقیقاتی کام کی جانب راغب کرتا ہے۔
اس پورے عمل سے جو لوگ ابھر کر سامنے آتے ہیں وہ اپنے اپنے عہد کے آئن اسٹائن، اسٹیفن ہاکنگ، کارل مارکس اور اقبال جیسے ماہر و امام فن کہلاتے ہیں۔
تعلیم کے ساتھ دوسری چیز جو عموماً بطور موضوع بحث آتی ہے وہ ملازمت ہے۔ میرے نزدیک ہمارے ہاں اصل مسئلہ ملازمت و تعلیم کے مابین رشتے کی درست تفہیم ہے۔ نظم کائنات انسان کی فطری ذمےداری ہے اور یہ نظم اسی صورت بہ احسن چل سکتا ہے جب کسی شعبہ حیات میں اس شعبہ سے منسلک اہلِ کار کو ہی یہ ذمےداری دی جائے۔ یہ ذمے دار لوگ معاشرے میں اسی تعلیمی عمل سے پیدا ہوتے ہیں لہٰذا جب ایک آدمی کسی ایک شعبے میں بنیادی تعلیم حاصل کرلیتا ہے تو معاشرے کی ضرورت کی تکمیل کےلیے اس مذکورہ شخص سے باعوض خدمات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اس مطالبہ خدمات اور اس مطالبہ پر صاد کرنے کے عمل کا نام دراصل ملازمت ہے۔
اچھا تعلیمی نظام نہ صرف معاشرے کی فطری ضروریات کی تکمیل کرتا ہے بلکہ معاشرے کے افراد میں شعور پیدا کرکے ایک حقیقی انسانی معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔
اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا
ہے خون فاسد کےلیے تعلیم مثل نشتر
(اقبال)