اسلام آباد: حکومت نے ملک کے امیر ترین طبقے ایکسپورٹرز کو گیس کی قیمتوں میں خفیہ طور پر 44 فیصد سبسڈی دینے کی تجویز دی ہے جبکہ گھریلوں صارفین کیلیے حکومت گیس قیمتوں میں 172 فیصد اضافہ کرنا چاہتی ہے، جو پاکستان کے کم ہوتے وسائل پر اشرافیہ کی گرفت کا اظہار ہے۔
خفیہ سبسڈی کی فراہمی آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں اور کابینہ کے فیصلوں کی بھی خلاف ورزی ہے، جس میں کیپٹیو پاور پلانٹس کو سستی گیس کی فراہمی بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، ایسا لگتا ہے کہ کیپٹیو پاور پلانٹس کے مالکان نے ریاست کو یرغمال بنا لیا ہے۔
گیس کی دو ڈسٹریبیوشن کمپنیوں سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلیے تمام کیٹیگریز کیلیے قیمتوں پر نظر ثانی کرنا ضروری ہے، گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ 2.1 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے، اگر گیس کی قیمتیں نہ بڑھائی گئیں تو اس میں مزید 395 ارب روپے کا اضافہ ہوجائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ نے کیپٹیو پاور پلانٹس کو سبسڈی دینے کی مخالفت کی ہے، اور اسے کابینہ کے فیصلوں اور آئی ایم ایف کے معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دفیا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ حکومت جولائی سے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا چاہتی تھی، لیکن سیاسی وجوہات کی بناء پر ایسا کرنے سے باز رہی، جس کی وجہ سے گیس کمپنیوں کو رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی کے دوران 46 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، اب رواں ماہ سے قیمتوں میں اضافے کی تجویز زیر غور ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان طویل عرصے سے اپنے ایکسپورٹرز کو سبسڈی فراہم کر رہا ہے جبکہ ایکسپورٹرز ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہے ہیں، رواں مالی سال کے دوران ایکسپورٹرز نے صرف 21 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرایا ہے جبکہ ان کے مقابلے میں تنخواہ دار طبقے نے اسی مدت کے دوران 71 ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا ہے۔