وطن عزیز میں چینی کو بہ کثرت کھانے پینے کی اشیا میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ چینی ہمارے ہاں گنے جبکہ کئی ملکوں میں چقندر سے بنتی ہے۔ چینی انگریزی میں’’ٹیبل شوگر‘‘ یا ’’سکروز‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ ’’شکر‘‘(شوگر)کی ایک قسم ہے۔ شکرکی کئی اقسام ہیں۔ یہ بنیادی طور پہ پانی یا کسی بھی مائع میں حل ہو جانے والے کاربوہائڈریٹ ہیں جنھیں اردو میں’’نشاستہ‘‘ کہتے ہیں۔
گلوکوز اور فرکٹوز شکر کی سادہ اقسام ہیں، معنی یہ کہ وہ صرف ایک سالمہ (مالیکیول) رکھتی ہیں۔ انھیں اصطلاح میں ’’سادہ شکریں‘‘ (monosaccharides) کہا جاتا ہے۔ جب ان کے سالمے باہم مل جائیں تو نئی اقسام وجود میں آتی ہیں۔ جیسے گلوکوز اور فرکٹوز کے ملاپ سے چینی بنتی ہے۔ گلوکوز کے دو سالمے ملنے سے مالٹوز شکر بنائی جاتی ہے۔ یہ دو سالموں والی شکریں ’’مرکب شکریں‘‘ (disaccharides) کہلاتی ہیں۔
جب سادہ شکروں کے سالمے بڑی تعداد میں آپس میں جڑ جائیں تو جنم لینے والی نئی اقسام کو ’’پیچیدہ شکریں‘‘ (polysaccharides) کہتے ہیں۔ یہ نئی اقسام عموماً اپنی مٹھاس کھو بیٹھتی ہیں۔ گندم، چاول، آلو اوردیگر اناج، سبزیاں اور پھل پیچیدہ شکروں کی اقسام ہیں۔
درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ اللہ تعالی نے اناج، پھلوں اور سبزیوں میں شکروں کی مختلف اقسام بہ کثرت پیدا فرمائی ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ اس شکر کی ایک قسم، گلوکوز ہمارے خلیوں کا بنیادی ایندھن ہے۔
ہمارے اربوں خلیے گلوکوز کے ذریعے توانائی پاتے اور یوں ہمیں زندہ رکھتے ہیں۔ انسانی جسمانی سلطنت کا اہم رکن، دماغ تو اپنی بیشتر توانائی گلوکوز ہی سے پاتا ہے۔
اسی لیے مرکب اور پیچیدہ شکریں بھی ہمارے جسم میں پہنچ کر کیمیائی عمل سے گذرتے گلوکوز میں بدل جاتی ہیں۔ خلیے پھر گلوکوز کو ایک کیمیائی عمل (glycolysis) سے گذار کر’’ اے ٹی پی‘‘ (ATP) نامی سالمہ بناتے ہیں۔ یہی سالمہ اربوں خلیوں کا ایندھن بن کر انھیں کام کرنے کے قابل بناتا ہے۔
حقائق سے یہ بھی عیاں ہے کہ انسان اگر روزانہ اناج، پھل ، سبزیاں اور گوشت بھی مطلوبہ مقدار میں کھائے تو اسے شکروں کی اچھی خاصی مقدار مل جاتی ہے۔ یہ شکریں پھر اس کے خلیوں کو توانائی دے کر انسان کو تندرست وتوانا رکھتی ہیں۔ مسئلہ اس وقت جنم لیتا ہے جب انسان خصوصاً سادہ شکریں رکھنے والی غذائیں زیادہ کھانے لگے۔
انیسویں صدی تک انسانوں کی غذا میں سادہ شکروں والے کھانے کم تھے۔ عام لوگ روٹی، چاول، سبزی اور گوشت سے پیٹ بھر لیتے۔ اسی صدی میں کارخانوں میں چینی وسیع مقدار میں بننے لگی۔ یوں گڑ کی جگہ سستی چینی استعمال ہونے لگی۔
سستی چینی ہی نے بیکری کی اشیا اور نت نئے میٹھے کھانوں مثلاً کیک، بسکٹ، پیسٹری، آئس کریم، کھیر، زردہ ، سویاں وغیرہ کو فروغ دیا اور وہ عوام کا بھی من بھاتا کھاجا بن گئیں۔رفتہ رفتہ کولا اور دیگر مشروبات بھی وجود میں آ گئے اور کھانے کے دوران پیے جانے لگے۔
چینی سمیت تمام سادہ شکریں کوئی غذائیت (nutrients)نہیں رکھتیں، وہ محض خلیوں کو توانائی فراہم کرتی ہیں۔ یہ سادہ شکریں اگر اعتدال سے کھائی جائیں تو انسانی صحت کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔ مسئلہ تب جنم لیتا ہے جب کثیر تعداد میں میٹھی اور کاربوہائڈریٹ والی غذائیں کھائی جانے لگیں۔
وجہ یہ ہے کہ میٹھی اور کاربوہائڈریٹ غذائیں زیادہ کھانے سے انسانی جسم میں قدرتاً زیادہ توانائی پیدا ہوتی ہے۔ یہ زائد توانائی پھر ہمارا جگر چربی کی صورت خصوصی خلیوں (adipocytes) میں جمع کر دیتا ہے۔ اگر جسم میں ان خصوصی خلیوں کی کثرت ہو جائے تو انسان موٹا ہونے لگتا ہے۔
بعض اوقات انسانی جسم میں میٹھی اور کاربوہائڈریٹ غذاؤں سے جنم لینے والی توانائی اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ وہ جگر ہی میں چربی کی صورت جمع ہونے لگتی ہے۔ یہی چربی پھر جگر کے ایک خطرناک مرض’’فیٹی لیور‘‘ (Fatty liver disease)کو جنم دیتی ہے۔ بدقسمتی سے اگر ابتدا میں اس مرض کا علاج نہ ہو تو وہ کینسر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ چینی کی غذائیں زیادہ کھانے سے انسان جگر کے کینسر کا شکار ہو سکتا ہے۔
جیسا کہ بتایا گیا، میٹھی اور کاربوہائڈریٹ غذائیں حد سے زیادہ کھانے پر انسانی جسم میں توانائی کی زیادتی ہو جاتی ہے۔ اس توانائی کو ٹھکانے لگانے میں جگر اور پتّے کو بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ پّتا انسولین ہارمون خارج کرتا ہے جو جسم میں موجود زائد شکروں کو خلیوں میں داخل کرنے لگتا ہے۔
یہ عمل اگر جسم میں شکروں کی زیادتی کے سبب مسلسل جاری رہے اور غیرقدرتی نوعیت میں بدل جائے تو کینسر جنم لینے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کینسر بنیادی طور پہ خلیوں کی خرابی سے پیدا ہونے والی بیماری ہے۔
موٹاپا بھی کینسر کی متفرق اقسام جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔ گویا شکروں کی زیادتی سے وجود میں آنے والا موٹاپا بھی انسان کو کینسر جیسی موذی بیماری میں گرفتار کرا سکتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب انسانی جسم میں چربی کے خلیوں (adipocytes)کی کثرت ہو جائے تو وہ آخرکار سوزش (inflammation) پیدا کر دیتے ہیں۔
اس سوزش کو ختم کرنے کے لیے ہمارا جسم زیادہ مقدار میں مختلف ہارمون اور دیگر افزائشی مادے (growth factors)خارج کرتا ہے۔ ان ہارمونوں اور افزائشی مادوں کی مقدار بڑھنے سے نئے خلیوں کی پیدائش کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ خلیے تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گذر کر نئے خلیوں کو جنم دیتے ہیں۔
چونکہ ہارمونوں اور افزائشی مادوں کی مقدار بڑھنے سے خلیوں کی تقسیم غیرقدرتی انداز میں جلدی ہونے لگتی ہے لہذا یہ امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ غیر معمولی تیزی کے سبب کسی نئے خلیے میں کوئی جینیاتی خرابی پیدا ہو جائے۔
یہ عمل کتنا حساس ہے، اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ صرف ایک نئے انسانی خلیے کے بیس ہزار جین (gene) میں سے صرف ایک جین میں معمولی سے بھی خرابی جنم لے تو وہ کینسر پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ کیونکہ اس خراب خلیے سے جنم لینے تمام خلیوں میں وہی خرابی موجود ہو گی۔ یہی خراب خلیے رسولی (ٹیومر) بنا کر کینسر کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔
درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ چینی براہ راست تو شاید نہیں مگر بالواسطہ طور پہ ضرور ان انسانوں میں کینسر پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے جو میٹھی اور کاربوہائڈریٹ غذائیں زیادہ کھاتے اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ تب نت نئی بیماریوں نے ان پہ حملہ کرنا ہی ہے۔
یہ یاد رہے، ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ایک صحت مند مرد کو دن میں زیادہ سے زیادہ آٹھ نو چمچی (ٹی سپون) چینی کھانی چاہیے۔ جبکہ خواتین زیادہ سے زیادہ چھ چمچی چینی لیں۔ اس سے زیادہ مقدار صحت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بدقستی سے پاکستانیوں کی بیشتر تعداد روزانہ ضرورت سے زیادہ چینی کھا جاتی ہے اور شاید اسی لیے یہ کھاجا مہنگا بھی ہو رہا ہے۔
ایک سافٹ ڈرنک کے گلاس میں چھ تا دس چمچی چینی موجود ہوتی ہے۔ گویا انسان نے دن میں ایک ایسا گلاس پی لیا تو چینی کا کوٹہ پورا ہوا۔ مگر عام طور پہ اسے دن بھر کام کاج کرتے ہوئے چینی والی مزید اشیا کھانی یا پینی پڑتی ہیں۔ اسی لیے زائد چینی جسم میں زیادہ توانائی پیدا کر کے اسے بیمار کرنے لگتی ہے۔ سوزش کا جنم لینا اس غیر قدرتی عمل کی پہلی نشانی ہے۔ اور یہ سوزش ختم نہ ہو تو وہ بالآخر انسان کو کینسر میں مبتلا کر دیتی ہے۔