یہ پچھلے برس ’کراچی آرٹس کونسل کا منظر ہے۔۔۔
شہرِ قائد کی خنک پڑتی ہوئی فضاؤں میں ’مہمان جاڑوں‘ کی آمد کی خبر مل رہی ہے۔۔۔
اِدھر سالانہ ’عالمی اردو کانفرنس‘ کی رونقیں جاری ہیں، لیکن اس سمے جیسے، گذشتہ دن کی خوب چہل پہل ذرا دَم لینے کو کم ہوئی ہو۔۔۔ وہ جو گذشتہ شام ڈھلے ٹھٹ کے ٹھٹ یہاں چلے آتے تھے، وہ صبح کے اِس پہر ذرا کم کم ہیں۔۔۔ اِسے صبح بھی کیا کہیے، کہ دوپہر ہونے کو ہے، لیکن خلقت کی آمد ابھی جوبن پر نہیں آسکی ہے۔۔
وہ پروفیسر شاہدہ قاضی، جن کی شفقت اور عجز وانکساری کے سائے میں اس شہر کے بہتیرے قد آوروں نے زانوئے تلمذ طے کیا ہے۔۔۔ اور ان کے شاگردوں کا تو کوئی انت ہی نہیں۔۔۔ ہمیں اگرچہ پروفیسر شاہدہ قاضی سے براہ راست شرفِ تلمّذ کا موقع تو نہیں مل سکا، لیکن ان کے بے شمار شاگرد ہمارے قیمتی اساتذہ ضرور ہوئے، گویا ہم ان کے شاگرد تو نہیں، لیکن ان کے شاگردوں کے شاگرد ضرور تھے۔۔۔ یقیناً یہ درجہ بھی کسی طرح اساتذہ کے مرتبے سے کم نہیں، بلکہ ایک طرح سے اساتذہ سے بھی زیادہ بلند ہوا۔ یہی نہیں ایک مرتبہ جب یہ انکشاف ہوا کہ ہمارے ’روسٹرم‘ پار ایک طالبہ اُن سے پڑھی ہوئی بھی ہے، تب بھی ایک عجیب طرح کی فرحت محسوس ہوئی تھی۔۔۔!
ہم اس سے پہلے انھیں مختلف تقاریب میں سنتے رہے، بالخصوص ہمیں ایک عشرے قبل اپنے ’ماسٹرز‘ کے زمانے میں ’جامعہ اردو‘ میں ان کا خصوصی لیکچر یاد آرہا ہے، جس میں انھوں نے اپنے صحافتی سفر سے لے کر اس وقت کے خبری چینلوں کی صورت حال کے حوالے سے یہ زور دیا تھا کہ اب ان چینلوں کو آزادی مل گئی ہے۔
اب انھیں آزادانہ طور پر خود کو بہتر کرنا ہوگا اور اپنے اندر ذمہ داری لانی ہوگی، نہ کہ ریاستی سطح سے ان پر کوئی قدغنیں اور روک لگائی جائیں! اس کے بعد بھی گاہے گاہے انھیں دیکھتے اور سنتے رہے، لیکن ہمیں کبھی باقاعدہ طور پر اس طرح کی کسی ملاقات کا کوئی اعزاز نہیں تھا۔
سو اُس روز کھڑے کھڑے ہی سہی ہم نے باقاعدہ ان سے اپنا ’شاگرد کے شاگرد‘ ہونے ہی کا تعارف کرایا تھا اور پھر وہی اخبارات، صحافت اور صحافیوں کی حالت اور حالات سے لے کر کیمروں اور ویڈیو کی چکا چوند تک پر گفتگو ہوئی تھی، پھر آج کل لوگوں کے کتابیں نہ پڑھنے پر مشترکہ اظہار افسوس۔۔۔ اس لمحے انھوں نے اپنی مختصر اور جامع خود نوشت بھی دستخط کر کے ہمیں عنایت فرمائی تھی۔
افسوس، پروفیسر شاہدہ قاضی 28 اکتوبر 2023ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئیں۔۔۔
وہ صوبہ سندھ کے ضلعے ’دادو‘ سے تعلق رکھنے والے ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ’قاضی‘ کی نسبت ان کے پُرکھوں میں ’قاضی‘ کا منصب ملنا تھا، انھوں نے 1944 ء میں کراچی میں آنکھ کھولی اور عہدِ کم سنی میں بٹوارے کا ہنگام اور کراچی میں مہاجروں کی آمد کے واقعات دیکھے۔ ان کی خود نوشت انگریزی میں اور فقط 108 صفحات پر مشتمل ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کس قدر اختصار اور جامعیت سے اپنی بھرپور زندگی کا احاطہ کیا ہے۔
اس کتاب کی سادہ زبان سے محسوس ہوتا ہے کہ کوچۂ صحافت سے در آیا اختصار ہی نہیں، سادگی اور سلاست کا ہنر بھی ان کے قلم میں بہ درجہ اتم موجود رہا، ورنہ عام طور پر خود نوشت لکھنے والوں کے لیے مختصر پیرائے میں بات کہنا کچھ زیادہ باسہولت محسوس نہیں ہوتا۔
پروفیسر شاہدہ قاضی اپنی خود نوشت میں زندگی کو ایک ’ناول‘ سے تشبیہہ دیتی ہیں۔ ایک ایسا ناول جس کے اختتام کا ہم میں سے کسی کو پتا نہیں ہوتا اور نہ اس ’’ناول‘‘ آنے والے ’مندرجات‘ کے بارے میں، کوئی خبر کہ آیا وہ پُرکیف ہوں گے، سرور بھرے ہوں گے یا پھر ان میں سوز وگداز ہوگا، المیے، دکھ، رنج اور تکالیف ہوں گی۔
وہ اپنی کتاب میں خود کو ’ناکام‘ قرار دیتی ہیں۔۔۔!
جب کہ ہم جیسے ’حقیقی ناکام‘ سوچتے ہیں کہ اگر یہ ناکامی ہی ہے، تو پھر ایسی ’’ناکامی‘‘ سب کو ملے۔۔۔! ان کے واسطے کوئی ایک اعزاز ہو تو اس پر باب باندھیے بھی، وہ تو ایک کے بعد ایک میدان میں پہل کرتی چلی گئیں۔۔۔ نہ صرف 1963ء میں جامعہ کراچی کے ’شعبہ صحافت‘ (جو کہ اب شعبۂ اِبلاغ عامہ بن چکا ہے) کی پہلی طالبہ، بلکہ 1965ء میں کلاس کی اولین اور اکلوتی طالبہ نے اول پوزیشن بھی پالی۔ اس کے بعد 1965ء میں ’ڈان‘ اخبار کا حصہ ایسے بنیں کہ مطبوعہ ذرایع اِبلاغ کی پہلی خاتون نامہ نگار قرار پائیں۔
اس حوالے سے ریڈیو جرمن کو اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ انھوں نے خاتون ہونے کے ناتے اوقات کار کی کوئی رعایت یا اور کوئی خصوصی سہولت نہیں مانگی اور کہا کہ جو مرد کارکنوں کو سہولتیں ملتی ہے، انھیں بھی وہی دی جائیں۔ اس بنا پر انھیں اپنے گھر میں آئے ہوئے مہمانوں کو نظرانداز کرکے دفتری ذمہ داریوں پر بھی جانا پڑتا تھا۔
اس کے بعد پی ٹی وی کی پہلی خاتون پروڈیوسر، 1999ء تا 2003ء پہلی خاتون مسند نشیں شعبہ اِبلاغ عامہ، جامعہ کراچی رہیں۔ انھیں 13 ستمبر 2023ء کو ’کراچی پریس کلب‘ کی اعزازی رکنیت نذر کی گئی تھی، جس میں ان کے بہت سے ہونہار شاگردوں نے انھیں خراج عقیدت پیش کیا تھا، جن میں ایکسپریس کے تجزیہ کار اور ہمارے استاد ڈاکٹر توصیف احمد خان، معروف صحافی مظہر عباس اور دیگر شامل تھے۔
بطور استاد پروفیسر شاہدہ قاضی کی تدریس کا سلسلہ 2004ء تک جامعہ کراچی میں رہا، پھر جناح یونیورسٹی برائے خواتین میں خدمات انجام دیں اور پھر 2010ء میں ’آئی او بی ایم‘ (انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ) سے منسلک ہوگئیں۔ ’جناح یونیورسٹی‘ میں آپ ’میڈیا اسٹڈیز کی بانی سربراہ کے ساتھ ’رئیس کلیہ فنون‘ بھی رہیں، جب کہ ’آئی او بی ایم‘ میں انھوں نے ’میڈیا اسٹڈیز‘ کی داغ بیل ڈالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
وہ لکھتی ہیں کہ یہاں انھوں نے مشاہدہ کیا کہ ’میڈیا اسٹڈیز‘ میں آنے والے طلبہ میں سرکاری جامعات کی بہ نسبت صحافت کی طرف جانے کے بہ جائے فلم سازی، مارکیٹنگ، اشتہاریات اور ’پی آر‘ میں جانے کا رجحان زیادہ ہے، اور یہاں اسی مناسبت سے نصاب ترتیب دیا جا رہا تھا، لیکن شاہدہ قاضی کی سرپرستی میں بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ ’سماجی علوم‘ کا کوئی شعبہ بغیر ’سماجی‘ مضامین کے مکمل ہو جاتا، سو انھوں نے یہاں فلسفہ، عمرانیات، اردو، سیاسیات اور تاریخ کے تعلق سے مختلف مضامین اس نصاب کا حصہ بنوائے، یہی وجہ ہے کہ دیگر نجی جامعات کے مقابلے میں یہاں کا نصاب اپنے اس پہلو کے اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔
پروفیسر شاہدہ قاضی بطور استاد ہی شفیق نہ تھیں، بلکہ ان کے ماتحت نئے اساتذہ نے بھی ان سے شفقت پائی، ان کے مرتبے اور عہدے سے اگر تعلیم وتحقیق کی کوئی سہولت مل سکتی تھی، تو انھوں نے کبھی اس کے لیے ہاتھ تنگ نہیں رکھا۔ زبردستی اور ’دفتری‘ بھول بھلیوں کا ’علاج‘ اپنی قابلیت اور ہنر سے کیا، مقصد علمی تہذیب کی بلندی رکھا۔
پہلی خبر ہی ’صفحۂ اول‘ پر شایع ہوئی
ظفر اقبال کو ’یوٹیوب‘ پر دیے گئے انٹرویو میں پروفیسر شاہدہ قاضی بتاتی ہیں کہ اُس زمانے میں لڑکیوں کے لیے میڈیکل کی تعلیم زیادہ بہتر سمجھی جاتی تھی، ان کی والدہ کی بھی یہی خواہش تھی، لیکن وہ کتابوں کی شوقین ہونے کے ناتے آرٹس سے زیادہ لگاؤ رکھتی تھیں اور اسی مناسبت سے انگریزی میں ’ایم اے‘ کرنا ان کا خواب تھا۔
یکایک انھیں جامعہ کراچی میں ’صحافت‘ کے شعبے کی خبر ملی اور یوں ان کا ارادہ یک سر پلٹ گیا اور انھوں نے ٹھان لیا کہ اب وہ ’صحافت‘ ہی میں ’ایم اے‘ کریں گی۔ شاہدہ قاضی کے بقول یہ ’صحافت‘ کا دوسرا ہی بیج تھا۔پھرجب اول پوزیشن آنے کے بعد گولڈ میڈل ملا تو اس وقت کے ہر اخبار اور میگزین میں ان کا انٹرویو شایع ہوا، تب میں خود کو شخصیت سمجھنے لگی تھی، کیوں کہ سوال، جواب کے پروگراموں میں ان کا نام بوجھا جاتا تھا کہ بتائیے کہ ’صحافت‘ میں اول پوزیشن کس کی آئی تھی؟ تب بہت اچھا محسوس ہوتا تھا۔
’صحافت‘ میں ماسٹرز کے بعد انھوں نے اپنے میلان کے مطابق اشتہارات کے شعبے میں انٹرن شپ کی، جس کے بعد ان کی سوچ میں بدلاؤ آیا۔
ایک دن ’ڈان‘ اخبار میں مضمون دینے گئیں، تو وہاں ’سٹی ایڈیٹر‘ شمیم احمد نے بتایا کہ یہاں ایک رپورٹر کی ملازمت آئی ہے، جس پر انھوں نے کہا کہ یہ تو مردوں کا کام ہے! لیکن انھوں نے اصرار کیا، یوں وہ پہلی خاتون رپورٹر ہوگئیں۔
’ڈان‘ میں اپنے پہلے دن کی یادیں کھنگالتے ہوئے پروفیسر شاہدہ قاضی نے بتایا کہ تب افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ پاکستان آئے ہوئے تھے، ان کا ذمہ لگایا گیا کہ ملکۂ افغانستان کی سرگرمیوں کا احاطہ کریں۔ اگلے روز یہ رپورٹ پہلے صفحے پر شایع ہوئی، جس سے بہت زیادہ خوشی ہوئی۔ پھر کراچی میں پی ٹی وی اسٹیشن کھلتے ہی ان کی پہلے سے ارسال کردہ درخواست پر ان کا تقرر ہوگیا۔
انھوں نے بھاری دل کے ساتھ ’ڈان‘ چھوڑا۔ پھر کراچی کے بعد لاہور اسٹیشن میں کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ ’پی ٹی وی‘ میں نہ صرف پہلی خاتون نیوز ایڈیٹر بلکہ پہلی خاتون نیوز پروڈیوسر بھی بنیں۔ 18 سال ’پی ٹی وی‘ میں رہیں، اور پھر زکریا ساجد صاحب نے اصرار کیا، تو انھوں نے ہتھیار ڈال دیے، وہ ’ایم اے‘ کے بعد ہی سے تدریس کے لیے اصرار کرتے تھے، لیکن انھیں کام کرنے کا شوق تھا، لیکن اب ’پی ٹی وی‘ سے آدھی تنخواہ پر جامعہ کراچی آگئیں، جہاںانھیں بہت لطف آیا، یہاں 20 برس گزار کر ریٹائر ہوئیں۔
پروفیسر شاہدہ قاضی نے سال بھر قبل ظفر اقبال کو دیے گئے انٹرویو میں یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ اب روحانیت اور صوفیت کی جانب بہت زیادہ مائل ہوگئی ہیں اور ان کے مطالعے کا مرکزی موضوع بھی اب یہی ہے۔
’دادو‘ میں واقع اپنے آبائی گاؤں ’پاٹ‘ کی تاریخی نسبت کے حوالے سے بتاتی ہیں، کہ یہی وہی جگہ ہے، جہاں مغل بادشاہ ہمایوں نے پناہ لی تھی اور اسی گاؤں میں شادی بھی کی تھی، شہنشاہ اکبر کی والدہ وہی تھیں۔ بچپن میں شاہدہ قاضی کو بوڑھی روح کہا جاتا، بڑوں کے سیاسی مباحث کی طرف متوجہ رہتی تھیں، گفتگو میں حصہ تو نہیں لے سکتی تھیں، لیکن بہ غور سنتی تھیں۔ کم سنی میں وہ بہت شرمیلی اور کم گو رہتی تھی، بعد میں تبدیلی آئی۔انہوں نے بتایا کہ آج کل کے ڈراموں کے موضوعات کو دیکھ کر بہت مایوسی ہوتی ہے۔
سب میں صرف شادی شدہ خواتین کے تعلقات اور خواتین کی سازشیں دکھائی جاتی ہیں۔ آج کل کے گانوں میں شاعری ہی نہیں، شاید گاتے اچھا ہوں، جدت ہو، لیکن شاعری پہلے کی بہترین ہوتی تھی۔ آج کل بچوں سے پوچھیے تو لکھنا کوئی نہیں چاہتا، سب ’اینکر‘ بننا چاہتے ہیں۔ پہلے ’اینکر‘ بھی دانش وَر ہوتے تھے، لیکن آج کل ایسا نہیں ہے۔