غزہ میں اسرائیل کی دہشت گرد کارروائیوں کے دوران مزید 306 فلسطینی شہری شہید ہوگئے ہیں جب کہ اسرائیل نے جن راستوں کو انخلا کے لیے محفوظ قراردیا ہے، وہ موت کے راستے بن چکے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ کے بعد غزہ پر قبضہ کرلیں گے اور غیر معینہ مدت کے لیے غزہ کی سیکیورٹی سنبھال لیں گے۔
اسرائیل نے ایک بار پھر ایک ماہ قبل غزہ سے داغے جانے والے راکٹوں کا بہانہ بنا کر مظلوم فلسطینیوں کو آگ اور خون میں نہلا دیا ہے۔
اسرائیل فلسطین کو چاروں طرف سے گھیر کر باقی عرب ممالک اور دنیا سے اس کا رابطہ ہمیشہ کے لیے کاٹنے کی تیاری کرچکا ہے اور اس کے نتیجے میں ایک خود مختار فلسطینی ریاست کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا، بالکل اسی طرح جیسے 1948 میں اسرائیل کی تشکیل کے دوران ہونے والی جنگ میں لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے، جس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔
اسرائیلی ظلم کا نشانہ بننے والے چھوٹے سے علاقے غزہ میں تیئس لاکھ فلسطینی رہتے ہیں، دراصل یہ فلسطینی کبھی اس جگہ آباد تھے جہاں آج اسرائیل ہے، آج اسرائیل دن، رات ان پر میزائل اور بم برسا رہا ہے۔ اس وقت مشرق وسطیٰ بڑی جنگ کے دہانے پر ہے۔ صیہونی حکومت فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے۔
سرزمین فلسطین کا 75 فیصد سے زیادہ حصہ غصب کرنے کے بعد اب اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس موقع پر مسئلہ فلسطین پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے کہ آخر اس مسئلے کا بیج کس نے بویا، زمین کس نے تیار کی، پانی کس نے دیا اور پھل کس کس نے کھانے کے خواب دیکھے تھے، مگر 7 اکتوبر 2023 کے دن فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس اس حد کو چھو گیا کہ اس نے 56 اسلامی ممالک کے ہوتے ہوئے بھی خود ایک قدم اٹھا لیا۔
1948 میں فلسطینی عرب حج (HUJ) نامی جگہ پر آباد تھے جہاں اسرائیلی فوجوں نے قبضہ کر کے انھیں مغرب میں واقع غزہ کے علاقے کی طرف دھکیل دیا اور مقبوضہ جگہ کو نیا نام سیدیرت (Sederot) دے دیا۔
وہ دن اور آج کا دن، فلسطینیوں کے آباؤ اجداد کی زمین اسرائیلیوں کے قبضے میں ہے اور وہ غزہ میں پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، خود اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈن بن گورین نے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرکے غزہ میں دھکیل دیے جانے کو غیر منصفانہ عمل قرار دیا، لیکن اسرائیل نے اس ظلم کو کافی نہیں سمجھا اور مسلسل اس کوشش میں رہا کہ سارے فلسطین پر قبضہ کیا جائے اور اب بالآخر اس نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ فلسطین کے علاقوں پر قبضہ کرلیا جائے۔
اس قبضہ کے بعد فلسطین کا رابطہ مصر، اردن، لبنان اور شام سے کٹ جائے گا اور یہ چاروں طرف سے اسرائیلی قبضے میں آجائے گا۔ ہر طرف سے اسرائیلی ریاست میں گھر جانے کے بعد فلسطین کی کوئی سرحد باقی رہے گی اور نہ کوئی خود مختاری اور اس وقت اسرائیل فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے اس ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔
اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ سات اکتوبر کو فلسطینی مزاحمت کاروں نے اتنا بڑا رسک کیوں لیا؟ جواب کے لیے اس معاملے کو دونوں پہلوؤں سے دیکھنا اور جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ اسرائیل کی جان پر بن آنے والے اس حملے کے اثرات خود فلسطینیوں، عالم عرب اور مشرق وسطیٰ پر، حتیٰ کہ یورپ و امریکا پر کیا ہوں گے اور بدلتی ہوئی دنیا میں تبدیلی کی رفتار پر اس سے کتنا اثر پڑے گا؟ ان سارے سوالات کے جوابات آنے والا وقت دے گا۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں سے لڑنے کے لیے امریکا نے اپنے فوجی بیڑے بھیج دیے ہیں جو ظاہر ہے کہ خطے میں مزید خونریزی کا باعث ہوگا، لیکن ایسا کر کے امریکا نے اپنی ان تمام کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے جس کے نتیجے میں عرب اسرائیل سے دوستی پر آمادہ ہو رہے تھے۔
سعودی عرب جس نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی آمادگی بھی ظاہر کر دی تھی، وہ بھی اب اپنا قدم پیچھے کھینچ لے گا، کیونکہ کوئی بھی ملک ہو اپنی عوام کی مرضی کے خلاف نہیں جائے گا، کیونکہ عوام کی اکثریت آج بھی فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہے۔
ایسی صورت میں جب نہتے فلسطینیوں نے اسرائیل کے چھکے چھڑا دیے ہیں، اسرائیل کی طاقت اور گھمنڈ پوری دنیا کے سامنے اجاگر ہوگئی ہے۔ اب اسلاموفوبیا کا شکار ہو کر بھلے ہی کوئی اسرائیل کی حمایت کرے، اس کی طاقت سے کوئی مرعوب نہیں ہوگا۔
مسئلہ فلسطین کی تاریخ میں فلسطینیوں کی تباہی کے جگہ جگہ حوالے موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے نے بنیادی طور پر جنم ہی تباہی و بربادی سے لیا تھا اور یہ تباہی و بربادی دونوں عالمی جنگوں کے باعث یورپی اقوام پر مسلط ہوئی تھی۔
جنگ زدہ یورپ معاشی، سیاسی اور سماجی عدم استحکام سے دوچار ہو رہا تھا۔ ایسے میں دو خدشات اور خطرات کا اہل یورپ اور امریکا کو سامنا تھا۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ نے یہودی دہشت گردی کو روکنے کے بجائے 1947 میں اپنی قرارداد 181 منظور کرتے ہوئے دو ریاستی حل کی بات کی جس سے اسرائیل کی راہ ہموار ہوگئی۔
نہ صرف یہ بلکہ امریکی دباؤ میں منظور ہونے والی اقوام متحدہ کی اس قرارداد میں 5.5 فیصد یہودیوں کو فلسطین کے 56 فیصد حصے کا مالک بنا دیا گیا۔ فلسطینیوں نے اس قرارداد کو مسترد کردیا اور آج تک وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ یورپ اور امریکا نے اسرائیل اور یہودیوں کی حمایت کرتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بیدخل کردیا جب کہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ سے بھی انھیں بے دخل کرنے کی اسرائیلی کوششوں کا ساتھ دیا۔
فلسطینیوں کی جدوجہد اور مزاحمت کا سلسلہ جاری رہا، مگر عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں کی صرف بے حسی ہی نہیں بلکہ اس معاملے میں ان کی جانبداری بھی جاری ہے۔ اسی جانبداری کی وجہ سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی اسرائیل نے ذرہ برابر اہمیت نہیں دی۔ 2006، 2008، 2014 اور 2021 اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی خونریزی کے سال تھے۔ یہ سال صابرہ اور شتیلہ کی یاد دلاتے رہے۔
حد تو یہ ہے کہ فلسطینی عوام کے جمہوری فیصلوں کو بھی قبول نہیں کیا گیا۔ غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل بنا دیا گیا۔ فلسطینیوں کے گھر، ان کی مساجد، اس کے تعلیمی ادارے حتیٰ کہ اسپتالوں کو بھی اسرائیل نے بمباری کرکے بار بار تباہ کیا۔
اقوام متحدہ کا ادارہ ’ انروا ‘ بھی اس تباہی سے بار بار دوچار ہوا، مگر امریکا نے عرب دنیا کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی ’’ نارملائزیشن‘‘ پر مجبورکیا، یہ سلسلہ 2020سے جاری ہے۔ ان تعلقات کی خبروں نے فلسطینی مزاحمت کاروں کو ایک فیصلہ کُن لڑائی پر مجبور کردیا۔
ایک جانب اسرائیل کو امریکا کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ مشرق وسطیٰ کے اس پورے ہولناک منظر نامہ میں سب سے زیادہ افسوسناک پہلو مسلم اور عرب حکومتوں کی بے حسی ہے۔ ایک جانب اسرائیل کو امریکا کی کھلم کھلا عسکری اور مالی امداد حاصل ہے تو دوسری طرف مسلم حکومتوں نے اپنے مظلوم بھائیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔
امریکی فوجی حکام تمام تر فوجی سازوسامان کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل میں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکا نے میرینز کو مقبوضہ ساحل پر تعینات کردیا ہے۔ ’’ سی این این‘‘ کی رپورٹ کے مطابق 2000 امریکی میرینز پر مشتمل یہ فورس ملک کے ان دو طیارہ بردار بحری جہازوں میں شامل ہو جائے گی جو اس وقت مشرقی بحیرہ روم میں تعینات ہیں اور دوسری طرف نام نہاد مسلم ملک مصر رفع بارڈر کو کھول کر غزہ کے تباہ حال فلسطینیوں تک کسی قسم کی مدد پہنچنے دینے پر راضی نہیں ہے۔
ایک جانب کولمبیا جیسا غیر مسلم ملک ہے جس نے فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کردیا ہے اور دوسری طرف ترکی، مصر، متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین، اومان، سوڈان اور مراکش جیسے مسلم ملک ہیں جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ انکا حال یہ ہی کہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طور پر اسرائیل سے سفارتی رشتے توڑنے کی بات تو دور ان کے حکمرانوں کے منہ سے غزہ پر اسرائیلی مظالم پر افسوس تک ظاہر نہیں کیا گیا۔
ان مسلم ملکوں نے امریکی اور یوروپی اسلحہ ساز کمپنیوں سے لاکھوں ڈالر مالیت کے جدید ترین ہتھیار تو خرید رکھے ہیں لیکن ان کی اتنی ہمت نہیں ہی کہ ان ہتھیاروں سے وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کا صیہونی ظالموں سے دفاع کر سکیں۔ اسرائیل انسانی قدروں کو پامال کر رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی، ایسے میں اسلامی ممالک کو ایک آوازہونا چاہیے۔
امریکا اور یورپی ممالک اِس وقت اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر خاموش ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ جنگوں سے تباہی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا، ہتھیار اور طاقت کے بل بوتے پر برتری ثابت کرنے کی خواہش بربادی کا باعث بنتی ہے۔ عالمی قوتوں کو اسرائیل کا ساتھ دینے کی بجائے امن قائم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اسرائیل کو غزہ پر جاری بمباری سے فوری طور پر روکا جائے۔