نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ غزہ میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، اس جاری تباہ کن صورتحال کے اثرات دوررس ہوں گے ۔
تفصیلات کے مطابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے تاشقند میں ترک نیوز ایجنسی کو ایک انٹرویو میں کہا کہ غزہ کی تباہ کن صورت حال کے اسپل اوور اثر ات بارے خبردار کرتے ہوے کہا ہے کہ یہ جنگ خطے سے باہر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے ۔ اسرائیل کے بیگناہ فلسطینیوں پر حملوں کا سلسلہ فوری بند ہونا چاہیے ۔ پا ک ترکیہ دوطرفہ تعلقات شاندار ہیں ۔ افغان مہاجرین کے انخلا کا فیصلہ کافی تاخیر سے ہوا ایسا بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا ۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لئے تنازعہ کشمیر کا حل ہونا ضروری ہے۔
ترک خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے انوارا لحق کاکڑ نے کہا کہ خطے میں ایک نہ ختم ہونے والا انسانی المیہ دیکھا جا رہا ہے۔ اور اس کا اثر نہ صرف خطے میں بلکہ خطے سے باہر بھی پڑنے کے بھی قوی امکانات موجود ہیں ۔ انہوں نے غزہ بحران کے فوری خاتمے کی ضرورت پر زور دیتے ہوے کہا علاقے کے جنگ متاثرین کو خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیاءکی بلا تعطل فراہمی کے لیے انسانی راہداری کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ اسلام آباد اسلامی تعاون تنظیم کے آئندہ خصوصی اجلاس میں شرکت کا منتظر ہے، ادارے کو صورت حال پر غور کرنا چاہیے، اور اجتماعی ردعمل کے ساتھ آنا چاہیے۔
غیر قانونی افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کے اسلام آباد کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ تھوڑی تاخیر سے کیا تاہم اب سرحد کے اس پار منظم نقل و حرکت کے لیے کافی پرعزم ہیں ۔ دنیا میں کہیں بھی کسی ملک کی طرف سے غیر قانونی امیگریشن کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے ۔ تو پاکستان کے ساتھ خصوصی طور پر ایسا رویہ کیوں برتا جارہا ہے ہے کہ وہ افغان شہریوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرے۔ ہر ملک دوسرے ممالک کے شہریوں کے ساتھ ایک منظم نقل و حرکت چاہتا ہے۔ پاکستان کا یہ فیصلہ طویل المدت میں افغان شہریوں اور پاکستانیوں کے بہترین مفاد میں ہو گا کہ باقی دنیا کی طرح ایک نارمل، منظم نقل و حرکت ہو۔
وزیر اعظم ترکیہ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو شاندارقرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان روابط اور تعاون کو بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت، زراعت اور دفاع کے شعبوں میں تعاون کے فروغ وسیع مواقع موجود ہیں۔ وزیراعظم نے ملٹی بلین ڈالر کے تاپی منصوبے کے حوالے سے کہا کہ نئی دہلی کی جانب سے مبینہ عدم دلچسپی کے باوجود اسلام آباد طویل عرصے سے زیر التوا منصوبے کے فوائد حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔ تاپی منصوبے پر ترکمانستان، افغانستان اور پاکستان کی طرف سے کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ بھارتی معیشت کو توانائی کی سستی اور پائیدار فراہمی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر وہ اس پورے انتظام کے فائدے سے باہر رہنے کا انتخاب کر تا ہے تو وہ اب بھی ایسا کر سکتا ہیں۔
دیرینہ حریف بھارت کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ کشیدہ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کاکڑ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کشمیر کے تنازعے کو حل کرنا ہو گا ۔ انہوں نے کہا کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک تصفیہ طلب مسئلہ ہے۔ پاکستان کا روایتی موقف ہے کہ اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کشمیریوں کو اپنے مستقبل اور اپنی تقدیر کا تعین کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور پاکستان ہمیشہ سفارتی اور سیاسی طور پر اس موقف کی حمایت کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ کب اور کیسے تعلقات کو معمول پر لایا جا سکتا ہے اس کا جواب تلاش کرنا یقینی طور پر معاشرے کے ہر طبقے بشمول قیادت، دانشوروں، کاروباری افراد اور دونوں ممالک کی سول سوسائٹی کے لیے ایک چیلنج ہے۔وہ ایک پرامید فرد ہیں اور جب بھی مشکل حالات ہوتے ہیں تو ہمیشہ ایک امید رہتی ہے۔ اور میں مسئلہ کشیر کے حل کے لئے بھی پر امید ہوں۔