Trending Now

حسد کے نقصانات اور تدارک

آج ہمارا معاشرہ انگنت برائیوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے، ظاہری اور باطنی برائیوں میں ہمارا سماج غرق نظر آتا ہے، جب ہم اپنے ماحول میں ایسی چیزیں دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ برائیوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، یہی سبب ہے کہ آج ہمارا سماج تیزی کے ساتھ تنزلی، پستی اور فرسودگی کی جانب رواں دواں ہے۔

آج ہم اخلاقیات سے دور ہوتے جا رہے ہیں جب کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اخلاقیات ہی سے قومیں بنتی اور بگڑتی ہیں، افسوس! آج ہمارے سماج میں اخلاقی اقدار کا فقدان نظر آتا ہے، اخوت و محبت کا پیارا درس آج ہم نے فراموش کر دیا اور جھوٹ، غیبت، عداوت، بغض و عناد، حسد اور کینہ جیسی بیماریوں مبتلا ہیں۔

یہ وہ بیماریاں ہیں جن کی وجہ سے آج ہمارے سماج میں آپس کی قربتیں ختم اور دوریاں مقدر ہوتی جا رہی ہیں۔ جس معاشرے میں حسد و کینہ عام ہو جائے وہاں کبھی امن و سکون نہیں ہو سکتا۔ بد امنی اور اضطراب اس معاشرے کا مقدر بن جایا کرتی ہے، جس طرح انسان کے جسم کو بیماری لاحق ہوتی ہے، بالکل اسی طرح انسان کی روح بھی بیمار ہوتی ہے اور حسد انہی بیماریوں میں سے ایک مہلک بیماری ہے۔

یہ وہ مہلک بیماری ہے جو روح کو بے چین، دل کو مجروح، ذہن کو مضطرب اور منتشر کر دیتا ہے، گویا کہ حاسد اپنی ہی جلائی ہوئی آگ میں جلتا رہتا ہے، حسد یقیناً ایک مہلک مرض اور بڑا گناہ ہے اسی لیے مذہب اسلام حسد کی تباہ کاریوں کو بیان کرتا ہے اور اخوت و محبت کا درس دیتا ہے، تاکہ معاشرہ فتنہ و فساد اور اختلاف و انتشار کا شکار نہ ہو اور امن و شانتی کا گہوارہ بن سکے۔

قران مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’اور آپ ان اہل کتاب کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا قصہ صحیح طور پر پڑھ کر سنائیے جب کہ دونوں نے ایک ایک نیاز پیش کی اور ان میں سے ایک کی تو مقبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی۔‘‘ (المائدہ)

حسد کے لغوی معنی کسی دوسرے کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے نقصان ہونے کی خواہش رکھنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے کسی کو اپنی کچھ دنیاوی نعمتیں عطا کی ہوئی ہیں جیسے گاڑی، بنگلہ اور بے شمار مال و دولت تو اس کی خواہش ہوگی کہ وہ سب کچھ اس سے چھن جائے جس کی وجہ سے اسے راحت ملے۔ حضورِ کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: دو چیزوں میں حسد نہیں۔ ایک یہ کہ اﷲ تعالیٰ کسی شخص کو علم اور مال عطا فرمائے اور وہ اپنے مال کو علم کے مطابق استعمال کرے۔

دوسرا یہ کہ کسی کے پاس علم ہو، لیکن مال نہ ہو اور وہ یہ خواہش کرے کہ اگر اﷲ تعالیٰ مجھے بھی مال عطا فرماتا، تو میں بھی اسی طرح خرچ کرتا یہ دونوں افراد ثواب کے اعتبار سے برابر ہیں اور اگر کوئی شخص مال کو لغو اور گناہ کے کام میں خرچ کرے اور کوئی دوسرا کہے کہ اگر میرے پاس ہوتا، تو اسی طرح اُڑاتا تو یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں۔

جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’عن قریب میری امت کو پہلی امتوں کی بیماری پہنچے گی۔ صحابہؓ نے پوچھا: پہلی امتوں کی بیماری کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: غرور، تکبر، کثرت حرص دنیا میں محو ہونا، ایک دوسرے سے بے زار رہنا، اور ایک دوسرے سے حسد کرنا یہاں تک کہ بغاوت ہوگی اور پھر قتل بہت زیادہ ہوگا۔‘‘ (المعجم الاوسط)

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے، اور صدقہ گناہ کو ایسے مٹا دیتا ہے، جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔‘‘ (صحیح، ابن ماجہ)

حضرت زبیر بن عوامؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’تم میں گذشتہ اقوام کی بیماریاں لوٹ آئیں گی، جن میں سے حسد اور بغض بھی ہے اور یہ مونڈھ دینے والی ہوں گی، یہ بال نہیں، بل کہ دین کا صفایا کردینے والی ہیں۔‘‘ (ترمذی)

حضرت انس بن مالکؓ کا بیان ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور اﷲ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی ہوکر رہو اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔‘‘ (صحیح بخاری)

آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’بندہ خدا کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے۔‘‘

اسلامی تعلیمات ہیں کہ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے حسد کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیر موجودی میں ان کی عزت کے خلاف باتیں کرو بلکہ اﷲ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔ حسد ہی کی وجہ سے قابیل نے کہا کہ میں تجھ کو ضرور قتل کروں گا، بالآخر قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا یہ دنیا کا پہلا قتل تھا اور اسکی بنیادی وجہ حسد کی بیماری تھی۔ حسد کی وجہ سے بھائیوں نے یوسف علیہ السلام کو ویران کنویں میں ڈالا اور حسد ہی کی وجہ سے نبی کریم ﷺ پر جادو کیا گیا۔ حسد کرنے والے کی دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ تین آدمیوں کی دعائیں قبول نہیں کی جاتیں: حرام کھانے والا۔ کثرت سے غیبت کرنے والا اور وہ شخص جس کے دل میں مسلمانوں کا بغض یا حسد ہو۔

جو انسان حسد کا شکار ہوتا ہے اس کی آخرت تو برباد ہوتی ہی ہے، دنیا میں بھی مختلف مصیبتوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسے ایسا غم لگ جاتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ایسی مصیبت میں گرفتار ہوجاتا ہے جس پر کوئی اجر بھی نہیں۔ حسد کی وجہ سے اﷲ کی توجہ اور رحمت سے دوری ہوجاتی ہے۔ اس کے لیے توفیق کے دروازے بند ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ تو چند دنیاوی عذاب ہیں، آخرت کا عذاب اس سے کہیں زیادہ ہے کیوں کہ یہ اﷲ کے فیصلے پر راضی نہیں ہے۔

آج ہمارے معاشرے میں یہ مرض رچ بس چکا ہے۔ ہر شخص مخلوق کی نگاہ میں معزز بننا چاہتا ہے اس لیے جب اس کے سامنے کسی کی تعریف کی جاتی ہے تو اس سے برداشت نہیں ہوتا اور اس کے اندر حسد کی آگ بھڑکنے لگتی ہے جو کہ انتہائی شرم ناک بات ہے۔ حسد جیسی خطرناک بیماری کے بے شمار نقصانات ہیں لیکن ہم یہاں پانچ نقصانات کا ذکر کریں گے۔

حسد جیسی بیماری کا پہلا نقصان یہ ہے کہ وہ انسان کی عبادت اور پرہیزگاری کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ حسد انسان کی نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے سوکھی لکڑی کو آگ۔ حسد جیسی بیماری کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ یہ گناہ اور شر کا باعث بنتا ہے، حضرت وہاب بن منباء فرماتے ہیں کہ حاسد میں تین خصلتیں نمایاں ہوتی ہیں کہ اگر وہ سامنے ہو تو چاپلوسی کرتا ہے اگر غائب ہو تو غیبت کرتا ہے اور کسی پر مصیبت ہو تو وہ خوش ہوتا ہے۔

حسد جیسی بیماری کا تیسرا نقصان یہ ہے کہ حاسد ہر وقت خواہ مخواہ مشقت اور پریشانی کا شکار رہتا ہے۔ حسد جیسی بیماری کا چوتھا نقصان یہ ہے کہ دل غفلت کے پردوں میں اتنا ڈوب جاتا ہے کہ اسے رب کائنات کی ذات بھی دکھائی نہیں دیتی یعنی اﷲ تبارک و تعالیٰ کے احکامات بھی اسے سمجھ نہیں آتے۔ حسد جیسی بیماری کا پانچواں نقصان یہ ہے کہ انسان نہ تو اپنے مقصد میں کام یاب ہوتا ہے اور نہ ہی دشمن پر فتح یاب ہوتا ہے۔

ہماری دعا ہے کہ حسد جیسی خطرناک بیماری سے اﷲ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے اور ہمارا دل بغض، کینہ، عداوت اور حسد جیسی بیماریوں سے مکمل صاف رکھے۔ ہمارے دل میں صرف اپنا خوف اور قرب پیدا کردے اور اپنے حبیب ﷺ کا عشق ہمیں عطا کرے ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں آسانیاں نصیب کرے۔ آمین

Read Previous

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی، انڈیکس 59 ہزار پوائنٹس کی سطح عبور کرگیا

Read Next

چاند کی مٹی میں فصلیں اگانے کا منصوبہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *