فلور ملز مالکان نے کہا ہے کہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے آٹے کا بحران جنم لے رہا ہے جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوں گے۔
اس بحران کی تمام تر ذمہ داری محکمہ خوراک پر عائد ہوگی۔محکمہ خوراک کی بے جا مداخلت اور پابندیوں کی وجہ سے فلور ملیں کام کرنے سے قاصر ہیں جس کا نوٹس لیا جائے، عوام کو غیر معیاری گلی سڑی اور بدبودار گندم نہیں کھلا سکتے۔
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ محکمہ خوراک نے سبسڈی کو ختم کر دیا ہے اور اب 3900 روپے من گندم خرید کر 4700 روپے من فروخت کر رہا ہے جبکہ راولپنڈی ریجن کی فلور ملز کو اپنی ضرورت کی گندم کا پچیس فیصدپنجاب کے دور دراز اضلاع سے گندم خریدنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
ن اضلاع جن میں بھکر، جھنگ، مظفر گڑھ اور بہاولپور شامل ہیں سے گندم خرید کر راولپنڈی اور اسلام آباد کی فلور ملوں تک پہنچانے پر پانچ سو روپے فی 100کلو تک لاگت آتی ہے مگر محکمہ خوراک کا کہنا ہے کہ پنجاب کے دور افتادہ علاقوں سے گندم خرید کر اسے راولپنڈی ریجن میں سرکاری ریٹ یعنی دس کلو کا تھیلا1374 روپے کابیچا جائے جو ناقابل عمل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل راولپنڈی اور اسلام آباد کی130 فلور ملوں کو گندم مقامی گوداموں سے فراہم کی جاتی تھی مگر اب پالیسی بدل دی گئی ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔
اس وقت فلور ملز کو انتہائی غیر معیاری سرکاری گندم فراہم کی جا رہی ہے، وہ بدبودار ہے جس میں مٹی کی آمیزش اورنمی زیادہ ہے، یہ گندم انسانوں کو نہیں کھلائی جا سکتی ہے۔فلور ملز مالکان کو پریشان اور عوام کو سستے آٹے سے محروم نہ کیا جائے۔