اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیس میں سابق فوجی افسران کو فریق بنانے کی درخواست دائر کر دی گئی۔
درخواست میں سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید، بریگیڈیئر ریٹائرڈ عرفان رامے، بریگیڈیئر ریٹائرڈ فیصل مروت اور بریگیڈیئر ریٹائرڈ طاہر وفائی کو فریق بنانے کی استدعا کی گئی ہے۔
اسکے علاوہ، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو فریق بنانے کی بھی استدعا کی گئی۔
دوران سماعت، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق کیوں نہیں بنایا گیا؟ حامد خان نے بتایا کہ شخصیات ادارے کی نمائندگی کر رہی تھیں اس لیے فریق نہیں بنایا، فیض حمید کو بطور گواہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بلانا تھا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یا کسی پر الزام نہ لگائیں یا پھر جن پر الزام لگا رہے انہیں فریق بنائیں، ادارے نہیں لوگ بُرے ہوتے ہیں، ملک کی تباہی اس وجہ سے ہوتی کہ شخصیات کے بجائے اداروں کو برا بھلا کہتے ہیں، اداروں کو لوگ چلاتے ہیں۔
وکیل حامد خان نے بتایا کہ فیض حمید کو فریق بنانے کا جوڈیشل کونسل نے موقع نہیں دیا، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اب تو آپ کے پاس موقع ہے اب کیوں نہیں فریق بنا رہے؟ کسی کی پیٹھ پیچھے الزام نہیں لگانے دیں گے، اس اعتبار سے تو سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ درست ہے۔ وکیل نے کہا کہ فیض حمید کو فریق بنانے پر اعتراض نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فریق بنا کر ہم پر احسان نہ کریں، اداروں پر الزام نہیں لگانے دینگے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ شوکت عزیز صدیقی نے الزام ہائی کورٹ چیف جسٹس پر لگایا تھا لیکن جسٹس انور کانسی کو بھی فریق نہیں بنایا گیا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا فیض حمید کو کسی اور درخواست گزار نے فریق بنایا ہے؟ وکیل بار کونسل نے کہا کہ فیض حمید کو نہیں آئی ایس آئی کو فریق بنایا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انور کانسی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں جواب جمع کرایا تھا۔