کینزس: سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چاند ایک نئے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ سائنس دانوں کی جانب سے اس دور کو ’لونر(قمری) اینتھروپوسین‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اینتھروپوسین وہ ارضیاتی عمر ہوتی ہے جس کو بطور اس دور کے دیکھا جاتا ہے جب انسانی سرگرمیاں موسم اور ماحول کو اثر انداز کرنے کے لیے غالب رہی ہوں۔
محققین کا کہنا ہے کہ انسانوں نے چاند کی سرزمین کو بدلا ہے اور اس حد تک بدلنے کا ارادہ کیا ہے کہ یہ مصنوعی سیارچوں (سیٹلائٹ) کے نئے دور کے طور پر سمجھا جائے۔انسانیت کا آئندہ برسوں میں چاند کے ماحول کو مزید تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے، جس میں چاند کی سطح پر واپس جانا اور انسانوں کو دوبارہ اتارنا شامل ہے۔
محققین کے مطابق اس دور کی ابتداء 1959 میں ہوئی جب روس کا لُونا 2 خلائی جہاز چاند کی سطح پر اترنے والا پہلا اسپیس کرافٹ بنا۔
یونیورسٹی آف کینزس سے تعلق رکھنے والے ارضیاتی محقق اور تحقیق کے سربراہ مصنف جسٹن ہولکومب کا کہنا تھا کہ یہ خیال بالکل زمین پر اینتھروپوسین کے متعلق ہونے والے مباحثے جیسا ہے، جس میں یہ مطالعہ کیا گیا کہ انسانوں نے اس سیارے کو کتنا متاثر کیا ہے۔
شائع ہونے والے اس تبصرے میں سائنس دانوں نے بتایا کہ قمری اینتھروپوسین کی ابتداء ہوچکی ہے لیکن سائنس دان چاند کو بڑے نقصان سے بچانا چاہتے ہیں یا اس کی شناخت کو اس وقت تک قائم رکھنا چاہتے ہیں جب تک سائنس دان انسانی سرگرمیوں کے سبب بننے والے چاند کے ہالے کی پیمائش کر سکیں، اور اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
انسان چاند کی سطح پر پہلے ہی بہت کچرا پھیلا چکا ہے۔ اس کچرے میں پہلی بار چاند پر اترتے وقت گالف کی گیندیں اور جھنڈے شامل ہیں جو وہاں پر چھوڑے گئے تھے۔ اس میں انسانی فضلا اور دیگر کچرا بھی شامل ہے۔
مزید یہ کہ انسان چاند کی سطح کو تبدیل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے اور لوگ اس سطح کو کھود کر وہاں رہنے کی تیاری کر رہے ہیں۔