ہوشیار، خبردار… کوویڈ۔ 19 مرض پھیلانے والے وائرس، سارس۔ کوو۔2 (SARS-CoV-2) کی نئی قسم (وئیرینٹ) پاکستان کے خصوصاً ان علاقوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔
جہاں سردی ہوتی ہے۔ یہ قسم بچوں اور بوڑھوں کو خاص طور پہ نشانہ بناتی ہے کہ ان کا جسمانی مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔ ماہرین نے اس نئی قسم کو ’’جے این۔1‘‘ ( JN.1) کا نام دیا ہے۔
ڈاکٹروں کو درپیش ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ موسم سرما میں جنم لینے والی مخصوص بیماریاں مثلاً زکام (Common cold) اور فلو (Influenza) بھی کوویڈ۔19 مرض جیسی علامات رکھتی ہیں۔ لہذا ڈاکٹر کو بغیر ٹیسٹ کیے معلوم نہیں ہو پاتا کہ مریض کس بیماری میں مبتلا ہے۔ اور تشخیص نہ ہونے سے علاج بہتر طریقے سے نہیں ہوتا۔ چناں چہ بروقت علاج نہ ہونے سے خدانخواستہ مریض کی حالت بگڑ بھی سکتی ہے۔
اگر یہ طبی خرابیاں جنم لیں تو مریض اعتدال سے پیراسٹامول استعمال کرے۔ وجہ یہ ہے کہ اس دوا کا زیادہ استعمال معدے کے استر میں سوزش پیدا کر دیتا ہے۔ یہ طبی خلل’’ گیسٹریٹس‘‘ (gastritis) کہلاتا ہے۔ نیز گردے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ بوڑھے مردوزن اور ذیابیطس کے مریض بھی یہ دوا احتیاط سے استعمال کریں۔
ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر دو دن سے زیادہ 100 درجے سینٹی گریڈ سے بالا بخار رہے اور کھانسی بھی مسلسل جاری رہے تو فوراً مستند معالج سے رجوع کیجیے کہ یہ مرض بگڑ جانے کی نشانی ہے۔اس حالت میں روزانہ تین بار اسہال آئیں، قے بھی آئے اور بھوک بالکل نہ رہے تو یہ حالت کوویڈ۔19 کی نئی قسم چمٹ جانے کا اشارہ ہو سکتی ہے۔
یہ واضح رہے کہ انسان اور تمام جانداروں کے جسمانی مدافعتی نظام اور وائرسوں وجراثیم کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگ جاری ہے۔ وائرس اور جراثیم انسانی خلیوں کو شکار کرتے ہیں۔
اسی لیے وہ اپنے جینیاتی مواد (ڈی این اے اور آر این اے)میں مسلسل ایسی تبدیلیاں پیدا کرتے رہتے ہیں جن کی بدولت وہ انسانی خلیوں کو زیادہ آسانی سے اپنا شکار بنا سکیں۔ مثلاً سارس۔کوو۔2 کی جدید قسم ’’جے این۔۱‘‘اپنے جینیاتی مواد میں اپنے جد وائرس کی نسبت ’’اکیس ‘‘نئی تبدیلیاں رکھتی ہے۔ان تبدیلیوں کے سبب وہ خصوصاً بچوں اور بوڑھوں کو بہت جلد اپنا نشانہ بنا لینے کے قابل ہو گئی۔
سارس کوو۔2کا تعلق وائرس کے ’’کورونا‘‘ (coronaviruses) خاندان سے ہے۔اس خاندان کے دیگر وائرس انسانوں اور جانوروں میں زکام بھی پیدا کرتے ہیں۔ جبکہ راینووائرس (rhinoviruses)، ایڈینووائرس (adenoviruses) اور اینٹیرووائرس (enteroviruses) بھی زکام کو جنم دینے کے ذمے دار ہیں۔ فلو کے وائرس (influenza viruses) وائرسوں کے مختلف گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ درج بالا سبھی وائرسوں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ جاندار کے نظام تنفس و نظام ہاضمہ پر سب سے پہلے حملہ آور ہوتے ہیں۔
موسم سرما میں ہوا میں نمی بڑھ جاتی ہے۔ چناں چہ پٹرول، ڈیزل ، کھیتوں کی باقیات جلانے سے بننے والی راکھ، فیکٹریوں سے نکلتے دھوئیں اور گردوغبار کے ذرات نمی میں شامل ہو کر ’’اسموگ‘‘ پیدا کرتے ہیں۔
سانس کے ذریعے کسی انسان میں یہ اسموگ مسلسل جسم میں جاتی رہے تو اسے فلو یا زکام میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اسموگ کی طویل المعیاد خرابیوں میں کینسر، فالج اور دل کی بیاریاں جیسے خطرناک عوارض شامل ہیں۔ اسی لیے اسموگ سے حتی الامکان بچیے اور خصوصاً اس میں سانس نہ لیجیے۔ زہریلی فضا میں سانس لینا صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔
موسم سرما کے فوائد
ویسے سردیوں کا موسم طبی فوائد بھی رکھتا ہے۔ یہ فائدے انسان کو اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب وہ ٹھنڈے پانی سے نہائے یا پھر آلودگی سے پاک سرد فضا میں اعتدال سے ورزش کرے۔ ایسی صورت میں مردوزن درج ذیل فوائدپا سکیںگے:
٭… مدافعتی نظام طاقتور ہو گا۔ وجہ یہ ہے کہ سرد ماحول میں ہمارے خون کے سفید خلیے (leukocytes) زیادہ متحرک ہو جاتے ہیں۔ یہی خلیے وائرسوں اور جراثیم کا مقابلہ کر کے ہمیں ان کی پیداکردہ بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔
٭…وزن کم کرنے میں مدد ملے گی۔ وجہ یہ ہے کہ سرد ماحول میں انسان قدرتاً کانپنے لگتا ہے۔ اس عمل میں ہمارا ایک جسمانی قدرتی نظام، تھرموجینیسیز (thermogenesis)زیادہ سرگرم ہو جاتا ہے۔ ہمارا جسم اسی نظام کی مدد سے حرارت پیدا کرتا ہے۔ یہ نظام زیادہ متحرک ہونے سے زیادہ حرارے(کیلوریز)بھی جلتے ہیں۔ یوں انسان کو وزن کم کرنے اور سمارٹ بننے میں مدد ملتی ہے۔
٭…انسانی جسم کے دو اہم ترین عضو، دماغ اور دل سرد فضا میں مضبوط ہوتے ہیں۔ جدید طبی تحقیق نے افشا کیا ہے کہ سرد ماحول میں ہماری دماغی سرگرمی بڑھ جاتی ہے۔ یوں ہماری قوت ِارتکاز میں اضافہ ہوتا ہے اور ہم جلدی درست فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ جبکہ سرد فضا میں دل کو خون پمپ کرنے کے لیے زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔ یہ عمل اس کے پٹھوں کو مضبوط وتوانا بناتا ہے۔
٭…ڈپریشن کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان جب سرد فضا میں سانس لے تو اس کا اعصابی نظام (nervous system) متحرک ہو جاتا ہے۔ نیز خون کی زیادہ مقدار دماغ کا رخ کرتی ہے۔ اس باعث دماغ ’’نوراڈرینلین‘‘ (noradrenaline)کی زیادہ مقدار خارج کرنے لگتا ہے۔
نوراڈرینلین ایک ہارمون اور نیوروٹرانسمیٹر ہے۔ یہ انسان کو منفی خیالات و احساسات سے نجات دلا کر اس میں مثبت جذبات پیدا کرتا ہے۔ بعض تحقیقات سے انکشاف ہوا ہے کہ سرد ماحول میں جانے ، خاص طور پہ سرد پانی سے نہانے پر دماغ ’’ڈوپمائن ‘‘ (dopamine) کی بھی زیادہ مقدار خارج کرتا ہے۔ یہ ہارمون انسان میں لطف وکرم اور انبساط کے جذبوں کو جنم دیتا ہے۔
ہماری جلد میں واقع ’’حرّی آخذے‘‘ (thermoreceptors) بھی سرد ماحول میں جانے سے ہمارے اندر خوشگوار احساسات پیدا کرتے ہیں۔ یہ حرّی آخذے سردی یا گرمی محسوس کر کے متحرک ہوتے اور برقی سگنل دماغ کو بھجواتے ہیں۔ ان سگنلوں کے ملنے سے دماغ انسان میں درد کا احساس ختم کر کے اسے خوشی ومسّرت عطا کرتا ہے۔
ڈپریشن دور کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باعث ہی اب یورپی ممالک میں اس بیماری میں مبتلا مریضوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ موسم سرما میں سرد پانی میں غسل کریں۔ ڈپریشن کا یہ انوکھا طریق علاج یورپ و امریکا میں مقبول ہو رہا ہے۔ پروفیسر مائیکل ٹپٹون (Professor Michael Tipton) برطانیہ کی یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ میں عضویات کے ماہر ہیں۔کہتے ہیں:
’’ایک چوبیس سالہ لڑکی چند سال بے چینی و پریشانی (anxiety)میں مبتلا رہی۔ پھر یہ کیفیت ڈپریشن میں بدل گئی۔ جب اسے کسی علاج سے افاقہ نہ ہوا تو اس کو کہا گیا کہ وہ ہفتے میں ایک بار سرد پانی سے غسل کرے۔ پہلا غسل کرتے ہی اس کا موڈ بہتر ہو گیا۔ لہذا لڑکی نے علاج جاری رکھا۔ ایک سال بعد وہ مکمل طور پہ صحت یاب ہو گئی۔‘‘
غرض موڈ بہتر کرنے کے لیے سرد ماحول والے کسی پُرفضا مقام پہ جائیے جہاں آکسیجن بھی بکثرت ہو۔ آلودگی کم سے کم ہونی چاہیے۔ اس مقام میں کچھ عرصہ گذارئیے اور اللہ تعالی کی نعمت، سردی کی برکات سے مستفید ہوئیے۔
٭…جسمانی و ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے۔ تناؤ (stress) بھی انسان کی روزمرہ زندگی متاثر کرنے والا عام طبّی خلل ہے۔ماہرین طب کا کہنا ہے کہ سردی میں گھومنے پھرنے یا ٹھنڈے پانی سے نہانے کے باعث نوراڈرینلین ہارمون بکثرت انسانی جسم میں جنم لیتا ہے۔
یہی تناؤ کے اثرات بھی کم کرتا ہے۔ نیز جسمانی سوزش میں بھی کمی لاتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو مردوزن سرد پانی سے غسل کریں، ان میں جسمانی و ذہنی تکالیف برداشت کرنے کی صلاحیت مضبوط ہو جاتی ہے۔
جدید طبی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ خصوصاً سرد پانی میں نہانے سے ہمارا جسم اینڈورفینز (endorphins) ہارمون بھی بڑی مقدار میں خارج کرتا ہے۔ یہ کیمیائی مادے انسان کو ذہنی و جسمانی طور پہ چست و توانا کرتے ہیں۔ لہذا انسان کی تھکن و مایوسی جاتی رہتی ہے اور وہ تازہ دم ہو جاتا ہے ۔اس میں روزمرہ زندگی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے توانائی و امنگ پیدا ہو جاتی ہے۔
٭…فٹنس بہتر ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب انسان سرد فضا میں ورزش کرے اور معتدل انداز میں دوڑ لگائے تو وہ زیادہ حرارے (کیلوریز) جلاتا ہے۔ یوں اسے چاق وچوبند رہنے میں خوب مدد ملتی ہے۔نیز چربی جل جانے سے وزن بھی کم ہو جاتا ہے۔
طبی طور پہ اس عمل کی تشریح یہ ہے کہ سردی کی وجہ سے ہماری جسمانی مشینری کو اپنا اندرونی درجہ حرارت اعتدال پہ رکھنے کے لیے زیادہ طاقت خرچ کرنا پڑتی ہے۔اس لیے ہمارا نظام استحالہ (metabolism) زیادہ سرگرم ہو کر چربی جلانے لگتا ہے۔
٭…اعضا کی سوزش سے چھٹکارا ملتا ہے۔ سرد ماحول میں خون کی ہماری نالیاں سکڑ جاتی ہیں۔ اس باعث جو اعضا مثلاً پپوٹے سوزش کا شکار ہوتے ہیں، ان میں سوزش کم ہو جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ خون کی نالیاں سکڑ جانے کی وجہ سے ان تک سوزش پیدا کرنے والے کیمیائی مادے زیادہ مقدار میں نہیں پہنچ پاتے۔اسی عمل کے باعث عضلات میں ہونے والا درد بھی ختم ہو جاتا ہے۔