بجلی صارفین پر رواں برس میں 2200 روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈالا گیا، میڈیا رپورٹس کے مطابق بجلی صارفین پر فی یونٹ تین روپے 23 پیسے کا مستقل سر چارج عائد کیا گیا جب کہ صارفین کو سہ ماہی اور ماہانہ ایڈجسٹ منٹس کا بوجھ الگ سے برداشت کرنا پڑا۔
دوسری جانب بجلی کی قیمت میں ایک بار پھر چار روپے 66 پیسے فی یونٹ اضافے کی تیاری کر لی گئی، جس سے صارفین پر 36 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا، جب کہ نگران حکومت نے صوبہ سندھ کی مخالفت کے باوجود گھریلو صارفین سے یکم جنوری2024 سے 232 ارب روپے وصول کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
پاکستان میں توانائی کا شعبہ جس میں بجلی، گیس اور پٹرولیم شامل ہیں معیشت پر روز بروز بھاری پڑتا چلا جارہا ہے اور مہنگی ہوتی ہوئی توانائی عوام کی قوتِ خرید اور مقامی معیشت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے نے عوام کی بل ادا کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثرکی ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اثر روپے کی گراؤٹ پر بھی پڑتا ہے۔ پٹرولیم کی قیمت میں نگران حکومت کے قیام کے بعد دو مرتبہ ہوشربا اضافہ کیا گیا۔ پہلے ہی مہینے میں دو مرتبہ اضافے کے ساتھ پٹرول کی فی لیٹر قیمت 35 روپے بڑھائی گئی اور پٹرول کی قیمت تاریخ میں پہلی مرتبہ 300 روپے فی لیٹر کی سطح عبور کر گئی۔
یہی وجہ ہے کہ ایندھن مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں طلب میں کمی دیکھی گئی۔ مالی سال 2023کے اختتام تک پٹرولیم مصنوعات کی کھپت 16.61 ٹن تھی جب کہ مالی سال 2022 میں یہ 22.6 ملین ٹن تھی۔
پاکستان کی معیشت زراعت پر انحصار کرتی ہے اور اجناس کی پیداوار میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن منافع خوروں اور کمیشن ایجنٹوں کی ملی بھگت اور گزشتہ چند برسوں سے خوراک کی ایران، افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کو اسمگلنگ وہ وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے اجناس کی قیمتیں کم ہونے کے بجائے مزید مہنگی اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔
مہنگائی پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے بڑھنے لگی ہے جس کی بنیادی وجہ بجلی، پٹرولیم، گیس، بجلی اور دیگر اشیاء کی قیمتیں سال میں کئی کئی بار بڑھائی جا رہی ہیں۔
اکثر و بیشتر اس کے لیے آئی ایم ایف کے قرضوں کی شرائط کا حوالہ دیا جاتا ہے، حکومت بس بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھا کر اپنا ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف پورا کر رہی ہے لیکن اس کا اس بات کی جانب ذرہ برابر دھیان نہیں ہے کہ ان اقدامات کے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں دکانوں پر غذائی اجناس موجود تو ہیں مگر لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہیں، لہٰذا وہ پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ حکومت کے ادویات پر جنرل ٹیکس اور قیمتوں میں آئے روز کے ہوشربا اضافے کے بعد لوگوں کے لیے علاج معالجہ بھی محال ہوچکا ہے۔
مافیاز نے اشیائے خورونوش اور روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کو ناجائز طور پر ذخیرہ کر کے مصنوعی بحران پیدا کر دیا ہے، جس سے ایک جانب عوام کی قوت خرید شدید متاثر ہوئی ہے تو دوسری طرف ملک میں آٹے، چینی، گھی، تیل، سبزیاں، گوشت اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔
غریب عوام جن کی محدود آمدنی ہے، انھیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کبھی چینی اور کبھی آٹے کا بحران پیدا کر کے ان کی قیمتوں کو بڑھا دیا جاتا ہے تو کبھی بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتی ہیں، جس سے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔
نگران حکومت نے گیس کی قیمت میں یکمشت 194 فیصد اضافہ کیا ہے جو کہ پاکستان کی تاریخ میں گیس کی قیمت میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں 174، کمرشل صارفین کے لیے 137 فیصد جب کہ سیمنٹ سیکٹر کے لیے 193 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل گیس کی قیمت میں سابقہ حکومت نے 112 فیصد اضافہ کیا تھا۔
اس طرح مجموعی طور پر گیس 305 فیصد مہنگی ہوگئی ہے جب کہ جنوری میں گیس کی قیمتوں میں مزید 137 فیصد اضافے کے لیے حکومت تیاری کررہی ہے۔ گیس مہنگی ہونے کے باوجود سردیوں میں گیس کی دستیابی کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور پائپ گیس کے کنکشن کے باوجود عوام ایل پی جی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
کسی ضروری شے کی بڑھتی قیمت تو نظر آجاتی ہے لیکن اس مہنگی قیمت کے پیچھے چھپی گرانی، اخلاقی اقدار کا انحطاط، انسانی رویوں میں ترشی، ذہنی صحت کا بگاڑ، قرابت داری کی معدومیت، خود غرضی، خود پسندی، بدمزاجی، بدلحاظی اور بدکلامی جیسے اثرات بظاہر نظر نہیں آتے لیکن اپنا اثر دکھاتے ہیں اور تو اور یہی مہنگائی معاشرے میں کرپشن اور بد عنوانی کی طرف مائل کرنے کا بھی باعث بنتی ہے۔
جب معیار زندگی تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہو، امیر و غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہو، ترقی پانے کے راستے محدود ہوں اور خاندانی ذمے داریوں کا بوجھ آپ کی کمر توڑ رہا ہو تو ایسے میں سیدھے راستے سے پھسلنے کا ہمہ وقت خدشہ موجود رہتا ہے۔
علم البشریات کے مطابق غربت جرائم کی طرف مائل کرتی ہے، یوں یہ مہنگائی ہمیں بہت مہنگی پڑتی ہے۔ لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ بیشتر گھرانے ایسے ہیں، جہاں مہینے کا اکٹھا سامان لانے کا رواج روز بروز ختم ہوتا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ تین برسوں کے دوران مہنگائی میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔
کراچی کو ملک کی معاشی شہ رگ کہا جاتا ہے۔ ملکی معیشت میں روشنیوں کے اس شہر کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے لیکن بیروزگاری اور غربت میں اضافے اور سرمایہ کاری میں کمی نے یہاں روزگار کی نیت سے آئے لوگوں کو واپس جانے پر مجبور کر دیا ہے۔
کراچی جیسے شہر میں معاشی عوامل اپنی جگہ لیکن دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث بھی بیرونی سرمایہ کاری یہاں کم ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ اپنا سرمایہ غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں جب کہ جو سرمایہ دار پہلے سے یہاں موجود ہیں، وہ بھی اپنے اثاثے بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں۔
مہنگائی کی بڑی وجہ مرکزی بینک کی وہ پالیسیاں ہیں، جن کی وجہ سے شرح نمو سست روی کا شکار ہے اور افراط زر تیزی سے بڑھ رہا ہے، بجٹ خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے مرکزی بینک کرنسی نوٹ چھاپ رہا ہے اور یہ بھی مہنگائی بڑھنے کی اہم وجہ ہے۔
اس مہنگائی کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کو بنیادی شرح سود میں اضافہ کرنا پڑا۔ اسٹیٹ بینک کے بنیادی کاموں میں مہنگائی یا افراط زر کو قابو کرنا شامل ہے اور اس کے لیے تمام ممالک کے مرکزی بینک مانیٹری پالیسی کا سہارا لیتے ہیں۔
سال 2023 کے آغاز پر جنوری میں بنیادی شرح سود کو ایک فیصد بڑھا کر 17 فیصد کردیا گیا۔ مارچ میں مزید اضافے کے ساتھ 21 فیصد، اپریل میں 22 فیصد، جون میں 23 فیصد کردیا گیا۔ موجودہ مالی سال میں بنیادی شرح سود کو 22 فیصد پر مستحکم رکھا گیا ہے۔
پاکستان میں بجلی کی قیمت 15 سینٹس فی یونٹ ہے جب کہ خطے کے دیگر ممالک میں بجلی 8 سے 9 سینٹس فی یونٹ پر فروخت ہورہی ہے۔ نیپرا کے جاری کردہ نرخ کے مطابق گھریلو صارفین کو 42.72 روپے فی یونٹ تک بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔
نگران حکومت کی جانب سے بجلی چوری کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن کیا گیا جس میں 52 ارب روپے کی ریکوری میں اضافہ ہوا۔ بجلی چوری کے خلاف 3 ہزار 400 مقدمات درج ہوئے ہیں۔حکومت کی جانب سے بجلی مہنگی کرنے اور بجلی کی چوری کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کے باوجود گردشی قرضوں میں کسی طور کمی نہیں ہورہی ہے۔
ایک طرف بجلی کی قیمت بہت زیادہ ہے تو دوسری طرف سرکار کی ملکیت میں موجود تقسیم کار کمپنیوں میں نااہلی اقربا پروری اور بد عنوانی کی وجہ سے حالات نہایت مخدوش ہیں۔ یو ایس ایڈ کی رپورٹ کے مطابق بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ٹیکنیکل اور کمرشل سطح پر زیادہ سے زیادہ 11 فیصد نقصانات کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
مگر پاکستان میں ڈیسکوز کے نقصانات کی شرح اوسطاً 19 فیصد ہے جب کہ پشاور اور سکھر ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے نقصانات 37 فیصد تک ہیں۔
نقصان میں چلنے والی ان ڈیسکوز کو پہلے صوبوں کے حوالے کرنے کی بات کی گئی مگر اب عالمی بینک اور ایس آئی ایف سی کی مشاورت سے طویل مدتی معاہدے کے تحت نجی شعبے کے حوالے کرنے پر عمل کیا جارہا ہے اور جلد پالیسی کابینہ میں پیش کی جائے گی۔پاکستانیوں کے لیے رواں سال معاشی لحاظ سے ایک مشکل ترین سال ثابت ہوا ہے۔
مہنگائی، ملازمت کے مواقع میں کمی، روپے کی ناقدری کی وجہ سے عوام مشکلات کا شکار رہے۔ سال 2024 کے بارے میں معاشی ماہرین بہت پُرامید ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال میں کیے گئے مشکل فیصلوں کے ثمرات نئے سال میں زیادہ نمایاں ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نئی قائم ہونے والی منتخب حکومت مشکل فیصلے کر پائے گی یا نہیں؟